مجلس۲۸نومبر۲۰۱۳ء حضرت رحمہ اللہ کی مختصر سوانح حیات!

محفوظ کیجئے

{slider آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)}

خلاصہءمجلس:  الحمدللہ شروع ہی سے حضرت والا مجلس میں رونق افروز تھے ۔شروع میں جناب اثر صاحب کے اشعار جو انہوں نے حضرت میر صاحب دامت برکاتہم کی محبت میں کہے ہیں وہ مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے اپنی پرسوز آواز میں سنا کر سماں باندھ دیا۔۔۔ پھر  حضرت والا کے حکم پر ممتاز صاحب نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کی مختصر سوانح پر مشتمل ایک مضمون جو حضرت اقدس میر صاحب دامت برکاتہم نے تحریر فرمایا ہے پڑھ کر سنایا۔۔۔آج اس مضمون کادوسرا حصہ ہی پڑھ کر سنایا گیا تقریباً ۵۰ منٹ  کی مجلس ہوئی۔۔۔ ۔۔۔۔۔

معلوم ہوا کہ مولانا ابراہیم کشمیری صاحب مجلس میں حاضر ہیں حضرت والا نے ارشاد فرمایا کہ اُن سے وہ اشعار سنواو جو اثر صاحب نے میری محبت میں کہے ہیں اور پھر حضرت والا کی ارشاد فرمایا کہ: اثر صاحب نے کچھ اشعار میری محبت میں کہے ہیں ۔۔ وہ سنوا رہا ہوں ۔۔۔ اس وجہ سے کہ حضرت والا نے فرمایا تھا کہ   جس کو کوئی اپنا مصلح بڑا بناتا ہے۔۔اور۔جس کو آپ اپنا بڑا سمجھتا ہے ۔۔اگر چہ وہ بڑا ہو یا نہ ہو۔۔تو اُس نے محبت اور عقیدت میں اضافے سے اُس کا باطنی نفع ہوتا ہے۔۔سننے والوں کو نفع ہوتا ہے۔۔ جتنا زیادہ حسن ظن اور عقیدت ہوگی اُتنا ہی فائدہ ہوگا۔۔اور دوسرا یہ کہ جو سننے والا یعنی شیخ ۔۔ تو حضرت والا فرماتے  تھے کہ میں یہ سمجھتاہوں جب کوئی میری تعریف کرتا ہے ۔۔کہ میری نہیں میرے شیخ کی تعریف ہورہی ہے۔۔اس سے بڑائی نہیں آئے گی۔۔میں بھی یہی کوشش کرتا ہوں ۔۔کہ اللہ تعالی بڑائی سے بچائے ۔۔نفس کو مٹائےرکھے اللہ تعالی ۔۔

مولانا ابراہیم کشمیری صاحب نے درج ذیل اشعار سنائے :

عشق مرشد کا شاہکار ہے تو

شیخ کامل کی یادگار ہے تو

 

رازدار ِ در ِ حبیب تھی جو

ایسی ہستی کا رازدار ہے تو

 

تیرے جیسا کوئی نہیں جگ میں

گویا یکتائے روزگار ہے تو

 

دور دورہ خزاں کا ہو کیونکر

گلشن ِ شیخ کی بہار ہے تو

 

اے خوشا ہم تری رعایا ہیں

مُلکِ اُلفت کا تاجدار ہے تو

 

جانثاری ہمیں سکھا واللہ

جانثاروں کا جانثار ہے تو

 

شیخ کا فیض عام ہوجائے

اسی کاوش میں بے قرار ہے تو

 

قدردانِ جنید و رومی ء وقت

آج ناقدری کا شکار ہے تو

 

عقل والوں کا فیصلہ ہے یہ

عشق والوں کا افتخار ہے تو

 

نارِ عصیان کے اندھیرے میں

نورِ عرفان کا منار ہے تو

 

جس پہ نازاں رہیں گے اہل ِ وفا

سچ ہے ایسا وفا شعار ہے تو

درج بالا اشعار کو سن کر سب حاضرین پر کیف و مستی طاری تھی ۔۔ کئی بار حاضرین نے بھی یہ اشعار مولانا ابراہیم کشمیری صاحب کے ساتھ پڑھنا شروع کردئیے۔۔ بہت ہی فائدہ دلوں میں محسوس کی۔۔۔اور حضر ت شیخ کے لیے  محبت کے دریا میں جیسے طوفان سا آگیا۔۔۔ اللہ تعالی ہمیں شیخ کی آنکھوں  کی ٹھنڈک بنائے ۔ اور صحیح معنوں میں قدردان بنائے آمین !

ان اشعار کے بعد حضرت نے مختصر سوانح والا مضمون کا دوسرا حصہ سنانے کا حکم دیا ۔۔۔ممتاز صاحب نے پڑھنا شروع کیا:

والد صاحب کی وفات:حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ سے بے انتہاء محبت فرماتے تھے۔ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ طبیہ کالج سے جب چھٹیوں میں گھر آتے تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے والد صاحب ایک ماہ پہلے سے اپنی آنکھوں میں سرمہ لگاتے تاکہ اپنے بیٹے کا چہرہ صاف طور سے دیکھ سکیں۔ طب یونانی کے آخری سال میں امتحانات کے زمانے میں والد صاحب کو مرض الموت لاحق ہوا لیکن انہوں نے منع فرمادیا کہ میرے بیٹے کو اطلاع نہ کرنا ورنہ وہ امتحان نہ دے سکیں گے۔ یہاں تک کہ والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔ ایسے شفیق والد پر جنہوں نے بہت ناز و نعمت میں حضرت کو پالا تھا ان کی جدائی پر حضرت کو کتنا غم ہوا ہوگا ۔ حضرت والا ترجمۃ المصنف میں تحریر فرماتے ہیں: 

’’  احقر جب ۱۷سال کا ہوا اور طبیہ کالج کا آخری امتحان کا آخری پرچہ لکھ کر شام کو قیام گاہ پر آیا تو گھر کا خط ملا جس میں میرے والد صاحب کا سایہ میرے سر سے اٹھ جانے کی خبر تھی قلب کو بہت سخت صدمہ ہوا ۔ گھر کے سامنے قبرستان تھا۔ قبروں کو نگاہِ عبرت سے دیکھا اور دل کو سمجھایا کہ ایک دن تجھے بھی اسی مسکن میں دفن ہونا ہے اور حق تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنا ہی عین عبدیت ہے۔۱۲سال کی عمر ہی سے شیخ کامل کی تلاش میں بے چین رہتا تھا اور اس طلب و دھن میں ہر فقیر و درویش صورت کے پاس پہنچتا مگر تسلی نہ ہوتی اور قلب میں تلاش ِحق کی بے چینی بڑھتی جاتی تھی   ؎

کہیں کون و مکاں میں جو نہ رکھی جاسکی اے دل

غضب دیکھا وہ چنگاری مری مٹی میں شامل کی

انتخاب مرشد:حضرت اقدس مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کا وعظ راحت القلوب مطالعہ کرنے کے بعد سلسلہ تھانوی ہی سے عقیدت ہوگئی اور یہ طے کیا کہ ا سی سلسلہ میں داخل ہونا ہے بچپن ہی سے قلب میں یہ تہیہ کر رکھا تھا کہ شیخ و مرشد اسی کو انتخاب کروں گا جو سراپا سوختہ جان سراپا عشق اور سراپا درد ہو۔ عشق الٰہی میں سرشار اور وارفتگی و دیوانہ مزاجی کے ساتھ حق تعالیٰ کے لئے اس کی جان پاک شدید والہانہ تعلق سے ہر وقت ماہی بے آب ہو۔ عشق حق اس کے ہر بُن مو سے ٹپکتا ہو۔ اس کے نالہائے نیم شب اور اس کی آ ہ و فغان اور اس کی آنکھیں اس کے درد باطن پر شہادت پیش کررہی ہوں   ؎

بوئے مے را گر کسے مکنوں کند

چشم مست خویشتن راچوں کند

الہ آباد میں ایک دوست نے مجھے حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق چشم دید کیف و دیوانگی اور وارفتگی کا کچھ اجمالی خاکہ بتایا جس سے مجھے اُمید ہوگئی کہ میری مناسبت وہیں ہوگی ، حق تعالیٰ نے غیب سے اعانت فرمائی اور احقر نے حضرت اقدس مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھول پوریؒ سے مکاتبت کا سلسلہ شروع کردیا اور حضرت ہی کو اپنا مرشد منتخب کرلیا۔ احقر نے حضرت اقدس کی خدمت میں اپنی اصلاح کے لئے جو پہلا خط لکھا تھا اس میں یہ شعر لکھا   ؎

جان و دل اے شاہ قربانت کنم

دل ہدف را تیر مژگانت کنم

                                                                                 ( انتہی کلامہ)

اس پہلے خط کے جواب میں مولانا عبد الغنی پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا کہ آپ کا مزاج عاشقانہ معلوم ہوتا ہے اور اہل عشق و محبت اللہ کا راستہ بہت جلد طے کرلیتے ہیں ، محبت شیخ مبارک ہو جو تمام مقاماتِ سلوک کی مفتاح ہے اور حضرت نے خط سے بیعت فرما کر کچھ ذکر و اذکار تلقین فرمائے۔

حضرتؒ ترجمۃ المصنف میں تحریر فرماتے ہیں: حضرت کی زیارت کے لیے قلب مشتاق و بے چین رہتا مگر کچھ موانع پیش تھے راتوں کو آسمان پر چاند تاروں سے تسلی حاصل کرتا اور قدرت کی ان نشانیوں سے دل ِ بے تاب کو تسکین ہوتی۔ کبھی آسمان کی طرف دیکھ کر بار بار حق تعالیٰ سے یہ عرض کرتا  ؎

اپنے ملنے کا پتہ کوئی نشان

تو بتادے اے مرے ربّ جہاں

احقر تعلیم طب سے فارغ ہو کر جب اپنے وطن واپس آگیا تو گائوں میں بھی ایک مسجد کسی قدر آبادی سے باہر تھی اور کچھ غیر آباد سی تھی وہاں سنّاٹا رہتا تھا ۔ احقر اسی مسجد میں ذکر کرتا اور بہت لطف آتا ۔ اس زمانہ میں اکثر یہ شعر پڑھا کرتا  ؎

پھرتا ہوں جنگلوں میں کبھی کوئے یار میں

وحشت میں اپنا چاک گریباں کئے ہوئے

ہم عشق میں ان کے بھلا کیا کیا نہیں کرتے

سر دھنتے نہیں اپنا کہ رویا نہیں کرتے

سیر صحرا کا لطف تو حضرت محمد احمد صاحب پرتاپ گڑھی دامت برکاتہم نے اپنے ایک شعر میں جس انداز سے بیان فرمایا ہے آج تک اس موضوع پر اس سے عمدہ شعر نظر سے نہیں گذرا۔ فرماتے ہیں  ؎

گیا میں بھول گلستان کے سارے افسانے

دیا پیام کچھ ایسا سکوتِ صحرا نے

قلب کا یہی تقاضا ہوتا اور یہی تمنا ہوتی کہ صحرا کے سنّاٹے میں میّاں کو یاد کر کے خوب رویا کروں۔قصہ مختصر یہ کہ تاب رنجیر ندارد دلِ دیوانۂ ما کا معاملہ آپہنچا اور احقر نے والدہ صاحبہ کی اجازت سے حضرت اقدس مولانا شاہ پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضری کا قصد کرلیا۔

احقر عین بقر عید کے دن نماز عید الاضحی سے ایک گھنٹہ قبل پھولپور پہنچا ۔ عجیب خوشی و مسرت تھی یہ تصور ذرہ ذرہ سے قلب کو مسرور کررہا تھا کہ یہ میرے مرشد کا شہر ہے   ؎

شہر تبریز ست و شہر شاہ من

نزد عاشق ایں بود حبّ الوطن

(رومیؒ)

میرے مرشدؒ اس وقت تلاوت میں مشغول تھے۔ ٹوپی زمین پر رکھی ہوئی تھی سر مبارک کے بال بکھرے ہوئے گریباں چاک تھا۔ اچانک میری طرف دیکھا۔ احقر نے عرض کیا۔ السلام علیکم۔ محمد اختر ہوں۔ پرتاب گڑھ سے آیا ہوں اصلاح کی غرض سے۔ ۴۰؍ دن قیام کا ارادہ ہے۔یہ تین باتیں ایک سانس میں کہہ گیا اور یہ آدابِ حاضری حضرت اقدس تھانویؒ کی کتابوں میں پڑھ چکا تھا۔ حضرت نے بڑے صاحبزادے کو پکارا اور فرمایا ان کے لیے ناشتہ لائو اور حکم فرمایا ناشتہ کرکے کچھ آرام کرلو۔

ایک ہی نظر میں ایسا معلوم ہوا کہ احقر حضرت شمس الدین تبریزی ؒ کی زیارت کررہا ہے۔ جلد مبارک پر جگہ جگہ عشق الٰہی سے جلے ہوئے نشانات ژولیدہ بال ۔ گریبان چاک تھوڑے تھوڑے وقفہ سے مسلسل آہوں کی آواز ۔ پس قلبی مراد پوری ہوتی نظر آئی کہ جیسا پیر اللہ سے چاہتے تھے اپنے کرم کے صدقہ میں ویسا ہی عطا فرمایا ۔ احقر کے یہ اشعار اسی نقشہ کو کھینچتے ہیں   ؎

ہم نے دیکھا ہے تیرے چاک گریبانوں کو

آتش غم سے چھلکتے ہوئے پیمانوں کو

ہم نے دیکھا ہے تیرے سوختہ سامانوں کو

سوزش ِغم سے تڑپتے ہوئے پروانوں کو

ہم فدا کرنے کو ہیں دولتِ کونین ابھی

تو نے بخشا ہے جو غم ان پھٹے دامانوں کو

حضرت کی والہانہ عبادت ذکر و تلاوت اور تہجد کی ہر دو رکعت کے بعد سجدہ میں دیر تک دُعا مانگنا اور آہستہ آہستہ رونے کا نقشہ احقر کی نگاہوں میں اب تک پیوست ہے ۔احقر نے ایسی والہانہ عبادت کثرت ِآہ ونعرہ ہائے عشق کے ساتھ کرتے ہوئے پھر کسی کو نہ دیکھا۔ اور حضرت والا کے رہن سہن کی سادگی حدیث کن فی الدنیا کانک غریب کی شرح تھی ۔ گھر کے احاطۂ صحن کی خام دیواروں کے کنارے بارش سے کٹے پٹے اور چٹائیوں کے ایک چھپر میں حضرت کا اکثر آرام فرمانا، کبھی دریا کی طرف سیر کرنا اور اکثر مغرب کے بعد عشاء تک صرف تاروں کی روشنی میں مسجد کی کھلی چھت والے حصہ میں ذکر اللہ اور تلاوت میں بار بار آہوںکی آواز اور نعرہ ہائے درد کے ساتھ مشغول رہنا  احقر کو آج بھی جب یاد آتا ہے تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ خانقاہ شریف کی سادگی دیکھ کر غالبؔ کا یہ شعر یاد آتا ہے   ؎

کوئی ویرانی سے ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

میرے مرشدؒ نے اپنے آستاں سے ایسے چپکایا کہ آخری سانس تک تاب جدائی نہ لاسکااور تقریباً سولہ برس دن رات کی صحبت کا شرف حاصل رہا اور اختر پر یہ حق تعالیٰ کا انعام عظیم اور یہی میرا حاصل مراد ہے۔‘‘

احقر جامع عرض کرتا ہے کہ یہ سولہ سال حضرت والا نے ایسے مجاہدے سے گذارے جس کا تصور کرنا بھی ہم جیسوں کے لئے ناممکن ہے ان مجاہدات کا مختصر تذکرہ اپنے اگلے مضمون ’’ تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘ میں کروں گا۔

شیخ کا والہانہ عشق اور خدمات و مجاہدات: حضرت والا فرماتے تھے کہ میرے شیخ حضرت مولانا عبد الغنی صاحب پھول پوری تو اس دُنیا کے آدمی ہی نہ تھے ، ہمہ وقت اللہ کی یاد میں غرق اور کیف و جذب میں رہتے تھے ۔حضرت کے گھر میں نہ بیت الخلاء تھا نہ غسل خانہ ، قضاء حاجت کے لیے جنگل میں جانا ہوتا۔ حضرت کی مسجد کے سامنے ایک چھوٹاسا تالاب تھا جس میں بہت جونکیں تھیں ، سردیوں میں اس کا پانی برف کی مانند ٹھنڈا ہوجاتا۔ جب نہانے کی حاجت ہوتی تو اسی تالاب میں نہاتے اور جیسے تالاب میں داخل ہوتے تو ایسا لگتا کہ بچھوئوں نے ڈنک ماردیا ہو اور جونکوں کو بھی ہٹاتے جاتے کہ کہیں چپک نہ جائیں ۔ شدید گرمیوں کے زمانے میں چلچلاتی دھوپ اور لُو میں روزانہ ایک میل دور ندی سے شیخ کے لیے پانی بھر کر لاتے کیونکہ حضرت شیخ پھولپوری نور اللہ مرقدہ کنویں کا پانی استعمال نہیں فرماتے تھے کیونکہ اس میں سے ہندو بھی پانی بھرتے تھے ۔ حضرت فرماتے تھے کہ اگر چہ اس کا استعمال جائز ہے مگر میرا دل اس کے استعمال کو نہیں چاہتا کیونکہ اگر کبھی اس کو استعمال کرلیتا ہوں تو دل پر قبض کی کیفیت طاری ہوجاتی ہے۔

حضرت رات ڈیڑھ بجے تک اپنے شیخ کے پائوں دباتے اور جب شیخ سو جاتے تو حضرت بھی سونے کے لیے لیٹ جاتے۔ حضرت پھولپوری تین بجے بیدار ہوجاتے تو حضرت بھی فوراً اُٹھ جاتے۔ حضرت فرماتے تھے کہ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ شیخ کو مجھے بیدا رکرنا پڑا ہو میں پہلے ہی بیدار ہوجاتا تھا اور تہجد کے لیے شیخ کو وضو کراتے۔حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوریؒ پہلوان تھے بہت طاقتور تھے ، رات تین بجے سے صبح نو دس بجے تک مسجد میں سات آٹھ گھنٹے عبادت میں مشغول رہتے ۔ حضرت فرماتے کہ میں کمزور تھا اتنی عبادت نہیں کرسکتا تھا مگر مسجد کے ایک کونے میںبیٹھ کر شیخ کے ذکر و تلاوت کو سنتا رہتا تاکہ شیخ کی عبادت میں خلل نہ پڑے۔ حضرت درمیان درمیان میں اللہ اللہ کہتے تو میں تصور میں اپنا دل حضرت شیخ کے دل سے ملا دیتا کہ شیخ کے دل کا نور میرے دل میں داخل ہورہا ہے ۔ فجر کے قریب جب نماز کی تیاری کے لیے حضرت مسجد سے نکلتے تو میں حضرت شیخ پھول پوری کے جوتے حضرت کے قدموں میں رکھ دیتا ، حضرت خوش ہوجاتے اور فرماتے ماشاء اللہ۔

جیسا کہ پہلے تحریر کرچکا ہوں کہ حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی پھولپوری ؒ بڑھاپے کی وجہ سے ناشتہ نہیں کرتے تھے تو حضرت بھی ناشتہ نہیں کرتے تھے حضرت کی جوانی تھی کڑاکے کی بھوک لگتی تھی لیکن صبح سے دوپہر ایک بجے تک چنے کا ایک دانہ بھی منہ میں نہیں جاتا تھا، میرا ناشتہ ذکر و تلاوت و ا شراق سے ہوتا تھا ، دوپہر ایک بجے شیخ کے ساتھ کھانا تناول فرماتے ۔ حضرت فرماتے تھے کہ شیخ کی صحبت میں بھوک اور تمام مشقتیں آسان ہوگئی تھیں اور اتنا مزہ آتا جس کا نور ابھی تک محسوس ہوتا ہے۔

اس کے علاوہ پھولپور میں قیام کی طویل مدت میںحضرت اتنے مجاہدات، مشقت اور حاسدین کی ایذا رسانیوں سے گذرے ہیں جن کا اجمالی ذکر اپنے اگلے مضمون ’’ تم سے بچھڑ کر زندہ ہیں‘‘ میں کروں گا، قارئین وہاں ملاحظہ فرمالیں۔

تحصیل علوم ِدینیہ: میرے حضرت عارف باﷲ مجدد زمانہ شیخ العرب والعجم حضرت مرشدنا و مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب نور اللہ مرقدہ نے عربی درسیات کی تعلیم اپنے شیخ کے مدرسہ بیت العلوم ہی میں حاصل کی اور اتنی محنت اور جانفشانی سے پڑھا کہ درس نظامی کے آٹھ سالہ نصاب کی چار سا ل میں تکمیل کی ۔ حضرت کے بعض ساتھیوں نے مشورہ دیا کہ حدیث کی کتابیں دارالعلوم دیوبند میں پڑھنی چاہیے لیکن حضرت نے انکار فرمادیا کہ وہاں مجھے شیخ کی صحبت نہیں ملے گی جوعلم کی روح ہے اور میرا مقصودہے ، علم میرے نزدیک درجہ ثانوی میں ہے اور اللہ کی محبت درجہ اولیٰ میں ہے، میں علم اس لیے حاصل کررہا ہوں کہ مجھے معلوم ہوجائے کہ کن باتوں سے اللہ تعالیٰ راضی ہوتے ہیں تاکہ وہ کروں اور کن باتوں سے اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں تاکہ ان سے بچوں جس پر عمل کی توفیق صحبت شیخ پر موقوف ہے ۔ اس لیے میں حضرت کو چھوڑ کر دیوبند نہیں جائوں گا۔حضرت کے ساتھیوں نے مذاق اڑایا کہ ہماری سندوں میں فاضل دیو بند لکھا ہوگا اور آپ کی سند میں فاضل بیت العلوم لکھا ہوگا اور بیت العلوم کو کون جانتا ہے۔ حضرت نے فرمایا کہ فاضل دیوبند کہلانے کے لیے علم حاصل نہیں کررہا ہوں اللہ کی محبت سیکھنے کے لیے کررہا ہوں۔ حضرت والا کی اس طلب و اخلاص و فنائیت کی برکت ہے کہ آج بڑے بڑے فضلاء دیوبند حضرت والا کے حلقۂ ارادت میں ہیں اور حضرت والا کے ارشادات کو نوٹ کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ حضرت والا کی زبان مبارک سے جو علوم ہم سنتے ہیں وہ نہ ہم نے کہیں پڑھے نہ سنے۔

حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے بخاری شریف کے چند پارے اپنے شیخ حضرت مولانا شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری ؒ سے پڑھے جو صرف ایک واسطہ سے حضرت گنگوہی ؒکے شاگرد ہیں یعنی حضرت شیخ پھولپوری ؒ کے استاد ِحدیث مولانا ماجد علی صاحب رحمۃ اللہ علیہ حضرت قطب العالم مولانا گنگوہی ؒ کے شاگرد ہیں۔ اس طرح حضرت والا صرف دو واسطوں سے حضرت گنگوہی ؒ کے شاگرد ہیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ حضرت مولانا گنگوہی ؒ سے اتنی قریبی سند اس زمانے میں شاید ہی کسی کو حاصل ہو۔

حضرت پھولپوری سے بیوہ والدہ صاحبہ کا نکاح اور حضرت کی کرامت کا ظہور: ترجمۃ المصنف میں حضرت والا تحریر فرماتے ہیں:’’ تعلق شیخ کے تقریباً چار سال بعد حضرت اقدس کی اہلیہ صاحبہ کا انتقال ہوگیا ایک عرصہ بعد ایک دن فرمایا کہ بغیر بیوی کے بہت تکلیف ہوتی ہے بعض بیماری ایسی آجاتی ہے کہ پیشاب پاخانہ کی خدمت بیوی ہی کرسکتی ہے۔

احقر نے والدہ صاحبہ سے نکاح کے متعلق مشورہ کیا۔ پھر حضرت اقدس سے درخواست کی۔ بہت مسرور ہوئے اور عقد فرما کر ارشاد فرمایا کہ حضرت امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کی والدہ صاحبہ سے حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے عقد فرمایا تھا‘‘۔

حضرت صفیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے خواب دیکھا تھاکہ چاند ان کی گود میں آگیا ہے۔ پھر آپ کا نکاح حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوا۔ بعینہ یہی خواب حضرت کی والدہ صاحبہ محترمہ رحمۃ اللہ علیہا نے دیکھا تھا اس میں بہت بڑی بشارت ہے کہ والدہ صاحبہ کا نکاح ان سے ہوا جو نائب رسول ہیں۔

ہندوستان میں خصوصاً دیہاتوں میں ہندئووں کے اثر سے بیوہ کے نکاح کو بہت معیوب سمجھا جاتا تھا۔ نکاح کے بعد جب حضرت اپنے وطن اٹھیہہ واپس آئے تو خاندان والوں نے بدتمیزی اور لعن طعن کی۔ حضرت نے ان کو کچھ جواب نہیںدیا اور مسجد میں جا کر دونفل پڑھ کر سجد ہ میں گر گئے۔ حضرت کے بھانجے محمد احمد صاحب اس کے راوی ہیں کہ تھوڑی دیر گذری تھی کہ بدتمیزی اور لعن طعن کرنے والوں پر مصیبتیں نازل ہوگئیں کسی کی بیوی بیمار پڑگئی اورمرنے کے قریب ہوگئی، کسی کا بچہ چھت سے گر پڑا، کسی کے پیٹ میں سخت درد ہوگیا۔ غرض سارے خاندان والے مصیبت اور پریشانی میں گرفتار ہوگئے تو پھر سب مل کر حضرت کے پاس مسجد میں گئے اور حضرت کے پائوں پر گر گئے کہ اللہ کے لیے ہم کو معاف کردیجئے۔ حضرت نے سب کو معاف فرما دیا اوران کی تمام مصیبتیں جاتی رہیں ۔

حضرت والا کا نکاح ،سادگیٔ معاشرت اور اہلیہ صاحبہ کی دین داری :حضرت نے اپنا نکاح اپنے آبائی وطن میں نہیں فرمایا ۔ حضرت نے فرمایا کہ اگر میں اپنے وطن میں نکاح کرتا تو شیخ سے دور ہوجاتا کیونکہ میرا وطن پھولپور سے بہت دور تھا اور بار بار وہاں جانا پڑتا اور بار بار شیخ سے جد ا ہونا پڑتا جو مجھے گوارا نہ تھا اس لئے پھولپور کے بہت قریب ایک گائوں کوٹلہ میں اپنا نکاح ایسی خاتون سے فرمایا جو عمر میں حضرت سے پندرہ سال بڑی تھیں لیکن ان کے تقویٰ و دینداری اور بزرگی کاپورے گائوں میں شہرہ تھا۔ حضرت کی معاشرت بالکل سادہ اور تکلفات سے پاک تھی جس کی مثال یہ ہے کہ حضرت نے اپنا نکاح خود پڑھایا کیونکہ گائوں میں کوئی عالم نہیں تھا۔

حضرت کی اہلیہ صاحبہ بہت ہی اللہ والی تھیںحضرت والا رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ شیخ کی صحبت میں مدت طویلہ تک رہنا اُن کی وجہ سے ہی ممکن ہوا حضرت شیخ پھول پوری رحمۃ اللہ علیہ  کے ساتھ حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کے شدید والہانہ تعلق کو دیکھ کر اہلیہ (حضرت پیرانی صاحبہؒ) نے شروع ہی میں خوشی سے اجازت دے دی تھی کہ آپ جب تک چاہیںشیخ کی خدمت میں رہیں ہمیں کوئی اعتراض نہ ہوگا ہماری طرف سے آپ پر کوئی پابندی نہیں، حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ وہ ہمیشہ دین میں میری معین رہیں اور ابتداء ہی سے مجھ سے کہا کہ ہم ہمیشہ آپ کا ساتھ دیں گے جو کھلائیں گے کھالیں گے، جو پہنائیں گے پہن لیں گے، اگر آپ فاقہ کریں گے ہم بھی فاقہ کریں گے، آپ جنگل میں رہیں گے تو ہم بھی جنگل میں رہیں گے، آپ سے کبھی کوئی فرمائش یا مطالبہ نہیں کریں گے اور کبھی آپ کو پریشان نہیں کریں گے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ انہوں نے اس عہد کو پورا کردکھایا اور زندگی بھر کسی چیز کی فرمائش نہیں کی۔ نہ زیور کی، نہ کپڑے کی، نہ مال کی۔ دنیا کی محبت ان میں تھی ہی نہیں، جانتی ہی نہ تھیں کہ دنیا کس کتّی کا نام ہے۔جب گھر میں داخل ہوتا تو اکثر وبیشتر تلاوت کرتی ہوتیں آخر میں بہت بیمار رہتی تھیں لیکن نماز ذکر و تلاوت میں کمی نہ کرتیں ۔ میں کہتا بھی کہ نفلی عبادت کچھ کم کر دیجیے تو ہنس کر خاموش ہوجاتیں ،حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی پھول پوریؒ  نے حضرت کے لیے فرمایا تھا کہ یہ تو صاحب نسبت ہیں ہی، لیکن ان کی گھر والی بھی صاحب نسبت ہیں۔

۱۹۶۰ میں اپنے شیخ حضرت پھولپوریؒ کے ساتھ حضرت نے پاکستان ہجرت کی لیکن بچوں کو ساتھ نہ لائے کیونکہ کچھ عرصے بعد حضرت پھولپوری کو تھوڑے دن کے لیے ہندوستان واپس جانا تھا لیکن بعض حالات کی وجہ سے حضرت پھولپوری واپس نہ جاسکے اور پاکستان میں ایک سال قیام کرنا پڑاحضرت بھی شیخ کے ساتھ پاکستان رہے ، یہ ایک سال حضرت پیرانی صاحبہ نے بڑے مجاہدے میں گذارا۔لیکن کبھی شکایت لکھ کر نہیں بھیجی۔ اسی زمانے میں حضرت کے فرزند مولانا مظہر صاحب جو اس وقت بچے تھے سخت بیمار ہوگئے ان کو لے کر روزانہ اعظم گڑھ جاتیں اور دوا لاتیں، بس ایک خط میں بچہ کی شدید علالت کا تذکرہ کیا اور دعا کے لیے عرض کیا واپسی کا مطالبہ اور شکایت پھر بھی نہ لکھی   ؎

گذر گئی جو گزرنا تھی دل پہ پھر بھی مگر

جو تیری مرضی کے بندے تھے لب ہلا نہ سکے

ایک بار احقر راقم الحروف کے بہنوئی سخت بیمار ہوگئے ان کی عیادت کے لیے احقر ناظم آباد جانے لگا تو احقر نے حضرت کے چھوٹے پوتے عبد اللہ میاں سلّمہٗ سے کہا جو اس وقت بچے تھے کہ دادی سے دُعا کی درخواست کردینا۔ مغرب کے بعد جب احقر واپس ہوا تو عبداللہ میاں سلّمہ سے پوچھا کہ دادی سے دُعا کرائی تھی؟عبد اللہ میاں سلّمہٗ نے کہا کہ ہاں ! جب میں نے دادی سے دُعا کے لئے کہا تو دادی سونے کے لیے لیٹ گئی تھیں ، دُعا کا سن کر داد ی اٹھیں وضو کیا دونفل پڑھے اور دیر تک دُعا کی ، احقر کوبہت شرمندگی ہوئی کہ اتنی بیماری اور کمزوری کی حالت میں حضرت پیرانی صاحبہ نے اتنی تکلیف اُٹھائی حالانکہ میں نے تو صرف دُعا کے لیے عرض کیا تھا ۔حضرت والاکو احقر نے یہ واقعہ سنایا اور بہت ندامت کا اظہار کیا ۔ حضرت والا نے مجھ سے فرمایا کہ آج میں تمہیں ایک راز کی بات بتاتا ہوں کہ میں خود ان کا معتقد ہوں اور ان کے وسیلہ سے دُعا کرتا ہوں، یہ اس دور کی رابعہ بصریہ ہیں۔ انتقال سے دو تین دن پہلے گھر کے افراد کو اور عیادت کے لیے آنے والی عورتوں کو کئی بار اُن کے قریب ایسی خوشبو محسوس ہوئی جو زندگی بھر کبھی نہیں سونگھی تھی۔

حضرت والا کے پسماندگان میں الحمدللہ ایک صاحبزادے حضرت مولانا محمد مظہر صاحب دامت برکاتہم (خلیفہ مجاز بیعت حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئیؒ) اور ایک صاحبزادی صا حبہ ہیں اور ماشاء اللہ پوتے اورنواسے ۔ حضرت کے سب پوتے ماشاء اللہ حافظ وعالم ہیں اور نہایت متقی اور خوش اخلاق اور حضرت والا کے اجازت یافتہ ہیں ۔ حضرت کے سب نواسے بھی نہایت صالح متقی اور متبع سنت ہیں۔ حضرت نہایت درد سے آبدیدہ ہوکر اکثر یہ دُعا فرماتے تھے کہ یا اللہ میری اولاد میں قیامت تک سب کو اللہ والا بنائیے کیونکہ آپ کا فاسق دیکھنے میں میرے دل میں تحمل نہیں ۔ حضرت والا کے دو صاحبزادے اور تھے محمد ازہر ، محمد اطہر جو بچپن ہی میں انتقال فرماگئے تھے۔

شیخ ثانی کا ادب ، بشارت منامیہ اور خلافت و اجازتِ بیعت: ترجمۃ المصنف میں حضرت والا تحریر فرماتے ہیں:’’ اختر اس وقت ۲۱سال کا تھا اور توفیق الٰہی سے اپنا عالم ِ شباب ایک بوڑھے شیخ کی خدمت و صحبت دائمہ میں نذر و فدا کررہا تھا۔ خانقاہ شریف قصبہ سے باہر تھی ۔ عجیب تنہائی کا عالم تھا ۔

ایک دن خواب دیکھا کہ میری پیشانی کے وسط میں حضرت مرشدؒ نے اللہ لکھا اور اب تک یاد ہے کہ انگشت شہادت سے کس طرح اللہ لکھ رہے تھے، اسی اثنا میں ایک دن خواب دیکھا کہ احقر حج کے لیے بمبئی گیا اور بحری جہاز پر سوار ہوگیا، دل میں آرہا ہے کہ مجھے حمل ہے اور خوف ہورہا ہے کہ جہاز ہی میں وضع حمل کا قصہ نہ پیش ہو۔ بیدار ہونے پر حضرت مرشدؒ کو خواب پیش کیا جواب تحریر فرمایا کہ آپ کو نسبت متعدیہ کی بشارت ہے۔

احقر عرض کرتا ہے کہ نسبت کی دو قسمیں ہیں۔ وہ تعلق مع اللہ جو دوسرے تک اپنا اثر نہ کرے اس کو نسبت لازمہ کہتے ہیں اور جو تعلق مع اللہ دوسروں پر بھی اثر انداز ہو اس کو نسبت متعدیہ کہتے ہیں۔حق تعالیٰ حضرت مرشد رحمۃ اللہ علیہ کی بشارت کو احقر کے حق میں قبول فرماویں۔ آمین !

شیخ کی اس بشارت کے کچھ دن بعد پھر خواب دیکھا کہ حضرت مرشد ؒ نے حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی دامت برکاتہم سے ارشاد فرمایا کہ آپ اختر کو اجازت دے دیں۔ ان دونوں خوابوں کی تعبیر کا ظہور اس طرح ہوا کہ حضرت والا نے آخری وصیت فرمائی تھی کہ ہمارے متعلقین کو لکھ دو کہ حضرت مولانا ابرار الحق صاحب ہردوئی دامت برکاتہم سے اصلاحی تعلق کرلیں۔ حضرت اقدس کے وصال کے بعد حسب وصیت احقر نے بھی تعلق اصلاحی حضرت مولانا سے کرلیا‘‘۔

حضرت فرماتے تھے کہ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ سے میرا بہت بے تکلفی کا تعلق تھا، خوب ہنسی مذاق رہتی تھی کیونکہ حضرت ہردوئی کا اصلاحی تعلق بھی حضرت پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ سے تھا اس لئے بالکل پیر بھائیوں جیسی بے تکلفی تھی ۔ حضرت ہردوئی کے خطوط کے اور دیگر بڑے بڑے علماء کے خطوط کے جوابات حضرت پھولپوری میرے مرشد حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب ؒ سے لکھواتے تھے حضرت پھولپوری کو حضرت پر اتنا اعتماد تھا لیکن حضرت فرماتے تھے کہ جب حضرت ہردوئی سے اصلاحی تعلق قائم کیا تو میں نے سوچا کہ اب بے تکلفی جائز نہیں کیونکہ غلامی ہے یہ دوستانہ نہیں ہے۔ حضرت کے شیخ اول حضرت پھولپوری اور شیخ ثانی حضرت ہردوئی کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ حضرت پھولپوری کی شان عاشقانہ تھی ہروقت یادِ الٰہی میں مستغرق ، حضرت کو معلوم ہی نہ تھا کہ  گرد وبیش میں کیا ہورہا ہے ، حضرت سراپا محبت تھے، عشق الٰہی میں ڈوبے رہتے تھے۔ جبکہ حضرت ہردوئی کی شان جلالی انتظامی اور اصلاحی تھی ہر وقت بیدار مغز اور ذرا سے منکر کو بھی برداشت نہیں فرماتے تھے فوراً اصلاح فرماتے۔ لیکن حضرت ہردوئی سے اصلاحی تعلق کے بعد حضرت نے اپنے کو ایسا مٹایا جیسے کوئی ادنیٰ طالب علم اپنے استاذ کا ادب کرتا ہے ۔ احقر نے خود دیکھا ہے کہ جب حضرت ہردوئی ہندوستان سے تشریف لاتے تو ہفتوں پہلے حضرت خانقاہ کی صفائی اور انتظام کاخاص اہتمام فرماتے اور فرماتے کہ میرے شیخ کے مزاج میں نفاست ہے کہیں ایسانہ ہو کہ ایسی کوئی بات ہوجائے جو حضرت کو ناگوار ہو اور حضرت کا قلب مبارک مکدر ہوجائے اور جب حضرت خانقاہ میںقیام فرماتے تو حضرت اپنی نشست گاہ پر تشریف نہیں رکھتے تھے کہ اب یہ میرے شیخ کی جگہ ہے اس پر بیٹھنا خلاف ادب ہے اور شیخ کے سامنے دو دو گھنٹے دوزانو ایک ہی نشست پر بیٹھے رہتے ۔ ہمارے سلسلہ کے ایک بزرگ نے فرمایا کہ حضرت ہمیں آپ کی صحبت اور مواعظ سے تو فائدہ ہوا ہی لیکن سب سے زیادہ فائدہ شیخ کے سامنے آپ کی فنائیت سے ہوا کہ اگرچہ آپ اس وقت شیخِ عالَم ہیں لیکن اپنے شیخ کے سامنے آپ نے خود کو ایسا مٹایا ہے کہ معلوم ہوتا ہے کہ آپ کا وجود ہی نہیں ہے۔

حضرت مولانا ابرار الحق صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اصلاحی تعلق قائم کرنے کے دوسال بعد مکہ مکرمہ حضرت ہردوئی ؒ کا ایک خط موصول ہوا جو حضرت نے جمعہ کے دن قبیل مغرب بیت اللہ شریف کے سامنے تحریر فرمایا تھا اور جس میں حضرت والا کو خلافت و اجازتِ بیعت سے سرفراز فرمایا۔

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلشن اقبال کا قیام: حضرت والا کا قیام بیس سال سے ناظم آباد میں تھا ۔ حضرت کے شیخ ثانی حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ہردوئی رحمۃ اللہ علیہ نے ہردوئی سے تحریر فرمایا کہ دل میں یوں آتا ہے کہ آپ اپنا مکان فروخت کر کے کسی دوسری جگہ زمین لیں اور وہاں خانقاہ بنائیں ، شیخ حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحبؒ کے حکم پر حضرت والا نے اپنا مکان فروخت کردیا اور گلشن اقبال بلاک ۲میں زمین خرید کر خانقاہ کے لئے وقف کردی، اپنے پاس کچھ نہیں رکھا صرف ایک چھوٹی سی دکان کتب خانہ مظہری کے لیے رکھ لی جو حضرت کی ذاتی ملکیت تھی۔اسی خانقاہ میں قرآن پاک کی تعلیم کے لیے ایک مکتب قائم فرمایا جس میں بچے قرآن پاک حفظ وناظرہ کی تعلیم حاصل کرتے تھے اور کافی عرصے بعد مسجد اشرف تعمیر کی گئی۔ الحمدللہ آج یہ خانقاہ پورے عالم کا مرکز ہے جہاں متوسلین و طالبین خصوصاً بڑے بڑے اہل علم افریقہ ، امریکہ ، برطانیہ ، فرانس ، جرمنی ، برما ، بنگلہ دیش ، ہندوستان ، افغانستان ، ایران ، کینیڈا، سعودی عرب ، اور عرب امارت وغیرہ سے اور پاکستان کے مختلف علاقوں سے اصلاح و تزکیہ کے لیے حاضر ہوتے ہیںاور یہی وہ جگہ ہے جہاں ایک چھوٹے سے حجرہ میں حضرت والا کا قیام تھا اور اسی چھوٹے سے حجرے سے سارے عالم میں دین نشرہوگیا۔ حضرت والا فرماتے تھے کہ آخری عمر میں حضرت شیخ مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری کا پاکستان ہجرت کرنا مجھ پر اللہ تعالیٰ کا خصوصی فضل تھا۔ اگر حضرت ہجرت نہ فرماتے اور ہندوستان میں انتقال فرماتے تو حاسدین وہاں مجھے دین کا کام نہ کرنے دیتے اور یہاں کراچی کے بین الاقوامی شہر میں قیام سے سارے عالم سے رابطہ ہوگیا اور دین کی اشاعت و تبلیغ آسان ہوگئی اور اصلاح اخلاق اور تزکیۂ نفس کا کام جو خانقاہ کی اصل روح ہے کراچی سے دنیا بھر میں پھیل گیا۔ الحمدللہ آج حضرت والا کی نسبت سے مختلف ممالک کے مختلف شہروں میں سو سے زائد خانقاہیں قائم ہیں جہاں سے دین کی اشاعت اور اصلاح و تزکیہ کا کام ہورہا ہے۔

خانقاہ امدادیہ اشرفیہ گلستان ِ جوہر اور جامعہ اشرف المدارس کا قیام:حضرت ہردوئیؒ کی منشاء سے حضرت نے دوسری خانقاہ سندھ بلوچ سوسائٹی ، گلستان جوہر میں قائم فرمائی ، جس کے قیام کا واقعہ حضرت کی کرامت کا ظہور ہے۔

یہاں پر حضرت والامیر صاحب نے فرمایا کہ اب مجلس برخاست  ۔۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries