بیان ۱۳       جنوری ۲ ۲۰۲ء   :جو علم اپنے کو فائدہ نہ دے سکے وہ دوسروں کو کیا فائدہ دے گا    

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

10:36) جناب مصطفیٰ مکی صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔ اشک روانِ عاشقاں نجم السما سے کم نہیں ان کا یہ خونِ آرزو عہدِ وفا سے کم نہیں جو ہے ادائے خواجگی پنہاں اسی میں ہے کرم ان کی رضا بھی دوستو ان کی عطا سے کم نہیں اُن کی نظر کے حوصلے رشکِ شہانِ کائنات وسعت قلب عاشقاں ارض و سما سے کم نہیں یاربّ یہ دردِ دل ترا سارے مرض کی ہے دوا ہے یہ مرض تری عطا جو کہ شفا سے کم نہیں نفس کو کردے تو فنا باقی رہے نہ کچھ اَنا راہ میں ان کی ناز و کبر جور و جفا سے کم نہیں یہ بھی کرم ہے آپ کا جس کا میں اہل بھی نہ تھا یعنی جو دردِ دل دیا دونوں سرا سے کم نہیں اخترؔ ہمارا دردِ دل بزم میں بے نوا سہی لیکن کسی کی چشم نم اس کی نوا سے کم نہیں 10:37) الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔۔۔ 12:44) علم کی دو صورتیں ہیں ۔۔۔ ایک یہ کہ اتنا علم حاصل کرنا ہرمسلمان مرد وعورت پر فرض ہے جس سے حلال حرام کی تمیز ہو جائے۔۔۔ باقی علماء کے فضائل تو بہت بڑھ کر ہیں۔۔۔اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنا فرض ہے۔۔۔ 16:01) کسی خاتون کے خط کا ذکر ۔۔۔اللہ معاف کرے دین سے کس کس طرح دُور کیا جارہا ہے۔۔۔ 20:49) جعلی پیر کس طرح لوگوں سے مانگتے ہیں۔۔۔ 23:04) اتنی اللہ کی محبت حاصل کرنا کہ جس سے ہم حلال کو لے لیں اور حرام کو چھوڑ دیں فرض ہے۔۔۔ 23:38) جو علم اپنے کو فائدہ نہ دے وہ دوسروں کو کیا فائدہ دیے گا۔۔۔؟ 24:29) اخلاقِ حمیدہ جو نہیں ہیں وہ حاصل کرلیں اور اخلاقِ رزیلہ جو ہیں اُن کو چھوڑ دیں۔۔۔ 25:55) وہ خواتین جو ای میل کرتی ہیں اُن کےلیے اعلان کے آپ اپنی عمر نہ لکھیں اور شرم کے مسائل نہ پوچھیں مسائل پوچھنے ہیں تو اپنے شوہر یا اپنے والدین کے ذریعے پوچھیں اور اپنا فون نمبر مت لکھیں۔۔۔ 30:17) آج کل کیسے لوٹ مار ہورہی ہے۔۔۔بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔۔۔۔ 35:03) ایک ہزار کرامات سے بڑھ کر دین پر استقامت سے رہنا ہے حضرت والا رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ استقامت کا پتہ حلال حرام ،جائز ناجائز،بازار میں،تنہائی میں ،ارتقل کے ڈرامے کے وقت چلے گا۔۔۔ 39:37) استقامت اس چیز کا نام ہے کہ ایک سانس اللہ تعالیٰ کو ناراض نہ کرنا۔۔۔حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمہ اللہ کا واقعہ۔۔۔ 43:11) الا بذکر اللہ تطمئن القلوب۔۔۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے اندر بہت ہی ضروری مضمون بیان فرمایا ہے کہ ساری دنیا اطمینان اور چین تلاش کررہی ہے، ساری کائنات کی ہر حرکت وسکون اطمینان کے حصول کے لیے ہے، ہر انسان بھاگا جارہا ہے، کوئی مچھلی کے شکار کے لالچ میں کشتی چلا رہا ہے، کوئی کپڑے کی دکان کھول رہا ہے، ڈاکٹر مریضوں کا علاج کررہا ہے، گرمی لگ رہی ہے تو ایئر کنڈیشن لگارہا ہے، مرنڈا کی ٹھنڈی بوتل پی رہا ہے،کاروبار کرنا جائز ہے،ایئر کنڈیشن لگانا جائز ہے،میں اس کو منع نہیں کر رہا ہوں، غرض دنیا میں جتنی بھی حرکات ہیں سب کا مقصد سکون اور اطمینانِ قلب ہے، لیکن ان تمام جائز حرکتوں کے باوجود اللہ تعالیٰ فرما رہے ہیں کہ مرنڈا اور سیون اَپ کی ٹھنڈی بوتل پینے سے حلق تو ٹھنڈا ہو جائے گا اور ایئرکنڈیشن اور پنکھوں سے کھال تو ٹھنڈی ہو جائے گی لیکن دل کی ٹھنڈک اور دل کا چین ہماری یاد میںہے، اگر تم کو ہماری یاد کی توفیق نہیں ہے تو ایئر کنڈیشن تمہاری کھال ٹھنڈی کردیں گے، آپ اس کی کھال کو پکڑیں گے تو اس کی کھال تو ٹھنڈی ٹھنڈی معلوم ہوگی لیکن کھال کے بعد جب حال پوچھو گےکہ تمہارا حال بھی اچھا ہے؟تمہارے دل میں بھی ٹھنڈک ہے؟ تو آپ کو پتا چل جائے گا کہ یہ ائیر کنڈیشن میں بیٹھا ہے لیکن وہ خود یہ کہے گا کہ دل تو آتشِ غم سے جل رہا ہے، غم کی آگ سے دل جل رہا ہے۔ 45:47) تو معلوم ہوا کہ اللہ کے سوا دنیا میں کوئی چیز ہمارے دل کو اطمینان اور چین نہیںپہنچا سکتی، اس دعوے کی دلیل خود اس آیت کے اندر موجود ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بِذِكْرِ اللّٰهِ کو مقدم فرمایا، عربی گرامر جو لوگ جانتے ہیں، علماء حضرات جانتے ہیں کہ جب کسی چیز کو جو بعد میں آنی چاہیے اس کو پہلے بیان کیا جاتا ہے تو اس میں حصر کے معنی پیدا ہوتے ہیں۔ تو کیا ترجمہ ہوگا؟ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ کاایک ترجمہ تویہ ہے کہ اللہ کے ذکر سے دل کو چین ملتا ہے۔یہ ترجمہ صحیح نہیں،صحیح ترجمہ یہ ہےکہ اللہ ہی کی یاد سے دلوں کو چین ملتا ہےکیونکہ اس آیت میں بِذِكْرِ اللّٰهِ کو مقدم فرمایا اللہ تعالیٰ نے، اصل میں عبارت عربی کی یوں ہونی چاہئے تھی، اَلَا تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ بِذِكْرِ اللّٰهِ دلوں کو چین ملتا ہے اللہ کی یاد سے لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنی یاد کو مقدم فرمایا جس کا عربی گرامر کے قانونی لحاظ سے ترجمہ کرنا پڑے گا اور حکیم الامت h نے یہی ترجمہ فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہی کی یاد سے دلوں کو چین ملتا ہے، ہی لگانا پڑے گا، دونوں معانی میں فرق سمجھ لیجئے۔اگر کوئی کہتا ہے اللہ تعالیٰ کے نام سے چین ملتا ہے تو معلوم ہوااور چیزوں سے بھی چین مل سکتا ہے، اللہ میاں کے نام سے بھی چین ملتا ہے اور مچھلی کھانے سے بھی چین ملتا ہے، مرنڈا پینے سے بھی چین ملتا ہے، ایئرکنڈیشن سے بھی چین ملتا ہے، مگر اللہ تعالیٰ نے بِذِكْرِ اللّٰهِ کو تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ پر مقدم فرما کر اس مفہوم کو بیان کر دیا کہ صرف اللہ ہی کی یاد سے دل کو چین ملتا ہے۔ ذکر روح کی غذا ہے مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ؎ ذِکرِ حق آمد غذا ایں روح را اس روح کی غذا صرف اللہ کی یاد ہے، روح کی غذا اللہ کا ذکر ہے۔ یہ کھانا پینا، مکان، بال بچے روح کی غذا نہیں ہیں، کیونکہ ہر ایک کی غذا اس کے علاقہ کی مناسبت سے ہوتی ہے جیسے بنگلہ دیش کا ایک آدمی آئے، اس کو آپ کتنا ہی چپاتی اور کباب اور بریانی کھلائیں لیکن اگر مچھلی نہ کھلائیں تو کہتا ہے کہ ہمارا پیٹ نہیں بھرا، ہماری غذا مچھلی ہے۔ قاعدہ کلیہ بیان کیا گیا ہے کہ کُلُّ مَنْ یَّسْکُنُ عَلٰی شَاطِئِ الْبَحْرِ جتنے لوگ ساحلی علاقوں میں رہتے ہیں، سمندر کے کنارے رہتے ہیں ان کی غذا مچھلی ہے، اب حیدر آباد دکن کا مہمان ہو اور آپ اس کوکھٹائی نہ کھلائیں تو اس کو مزہ نہیں آتا، کیونکہ وہاں کھٹائی بہت کھائی جاتی ہے، تو ہر علاقہ کی ایک غذا ہوتی ہے۔ اسی طرح روح اللہ کے پاس سے آئی ہے،اللہ پاک فرماتے ہیں: ﴿قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ ﴾ (سورۃ الاسراء، آیۃ:۸۵) اے نبی! آپ اعلان کردیجئے کہ روح عالمِ امر سے آئی ہے، اللہ کے پاس سے آئی ہے، تو جب روح کو وہاں کی غذا ملے گی یعنی اللہ کے نام کی غذا ملے گی تب ہی اس کو چین آئے گا، سکون ملے گا۔ 46:26) بعض لوگ کہتے ہیں کہ امریکا، جاپان اور ہندو بنیوں کو اور کافروں کو بہت دنیا ملی ہے اور مسلمان وضو کر تے ہیں، تہجد پڑھتے ہیں مگر پھر بھی چٹائیاں توڑ رہے ہیں، ان کے اندر وہ مالداری نہیں آئی تو معلوم ہوا کہ اللہ میاں اپنے دشمنوں کو اتنا مال کیوں دیتے ہیں اور اپنے دوستوں کو اور ایمان والوں کو اتنا کم کیوں دیتے ہیں، تو میں نے اس کا جواب دیا ؎ دشمنوں کو عیش آب و گِل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا 49:03) حرام عشق عذاب ِالہی ہے۔۔۔آج لڑکی لڑکی سے عشق لڑائے ہوئی ہے۔۔۔علم کے ہوتے ہوئے عمل نہیں کرتے ۔۔۔۔ 51:41) دشمنوں کو عیش آب و گِل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا جو اللہ کے دشمن ہیں اللہ نے ان کو آب اور گِل یعنی پانی اور مٹی کی دنیا دے دی کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو مٹی کی شکلوں پر اپنی زندگی کو مت تباہ کرو۔ اپنے جسم کو اس اللہ پر فدا کرو جس نے آپ کے جسم کو بنایا ہے،اگر مٹی، مٹی پر مٹی ہوگئی یعنی آپ مٹی کی شکلوں پر پاگل ہوگئے تو یہ مٹی، مٹی پر فداہوئی ہے، قیامت کے دن اس کی کیا قیمت لگے گی، اللہ تعالیٰ پوچھیں گے کہ تم نے میری دی ہوئی زندگی کو کہاں استعمال کیا؟ تو مٹی مثبت مٹی آخر میں ٹوٹل مٹی ہی آئے گا۔ تو دنیا میں جتنے لوگ اللہ سے دور ہیں، ان کو کتنی ہی دنیا مل جائے لیکن آپ ان پر لالچ نہ کریں، قارون کا خزانہ دیکھ کر بیوقوف لوگوں نے لالچ کیا تھا: ﴿ يٰلَيْتَ لَنَا مِثْلَ مَآاُوْتِيَ قَارُوْنُ ﴾ قارون کے خزانے دیکھ کر بعضوں نے کہا تھا کہ کاش ہمارے پاس بھی اتنا خزانہ ہوتا، لیکن جو اللہ والے تھے انہوں نے کہا کہ ہلاکت ہو تم پر تم ایسی تمنا بھی نہ کرو، قارون اللہ کے غضب کے سائے میں ہے، جس پر اللہ کا غضب ہو اس کی نعمت کو دیکھ کر مت للچاؤ، جن سے اللہ ناراض ہو ان کی بریانی وکباب کو دیکھ کر مت للچاؤ۔ 54:44) کسی خاتون کی شہرت کو دیکھ کر مت للچاؤ کہ اس کی دولاکھ تنخواہ ہے اس کی وہ تصویر آگئی ہے فرمایا کہ یہ لعنتی شہرت ہے اس کی تمنا مت کرو ۔۔ 58:03) بال کٹوانے والیو!اللہ تعالیٰ نے کیا فرمایا ہے لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقويم۔۔۔۔ 01:02:58) کفار کے سامانِ عیش کا انجام دائمی عذاب ہے حکیم الامت ، مجدد الملت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ انگریزوں کے زمانے میں جس کو پھانسی ہوا کرتی تھی تو انگریز حکومت اعلان کرتی تھی کہ ایک مہینے بعد تم کو پھانسی ہونی ہے تو ایک مہینہ کے اندر تم شاہی پیسے سے جو چاہو کھاؤ، رس ملائی کھاؤ، سمندر دیکھو، ہر خواہش پوری کرو، لیکن جب اخبار میں آتا تھا کہ اس کو ایک ماہ کے بعد پھانسی دی جائے گی تو اس کی رس ملائی، شامی کباب اور بریانی پر کوئی لالچ نہیں کرتا تھا، ہر آدمی کہتا تھا کہ اللہ بچائے ایسی آرزو سے جس کے بعد پھانسی ہونے والی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ جس کو ایمان دیتے ہیں، وہ دنیا کی چند دن کی لذتوں کو چھوڑ دیتا ہے کہ جس کے بعد پھانسی ہونے والی ہے، لہٰذا جو اللہ سے غافل ہیں اپنے ان دشمنوں کو اللہ پاک نے کیا دیا؟ پانی اور مٹی دی ہے ؎ دشمنوں کو عیش آب و گِل دیا دوستوں کو اپنا دردِ دل دیا اﷲ نے اپنے دشمنوں کو عیشِ آب وگِل دیا اور اللہ والوں کو اپنی محبت کا درد بخشا جس کی برکت سے وہ تلاوت میں، ذکر اللہ میں، مناجات میں، اشکبار آنکھوں کے مزے لوٹ رہے ہیں، لذتِ مناجات کا کیا پوچھتے ہو۔ حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی hنے بیت اللہ کے اندر عشاء کے بعد سجدہ میں سر رکھ کر مناجات شروع کی تو فجر کی اذان ہوگئی لیکن انہوں نے سجدہ سے سر نہیں اٹھایا اور پوری رات یہ شعر پڑھتے رہے ؎ اے خدا ایں بندہ را رسوا مکن گربدم من سرِّ من پیدا مکن اے اللہ! مجھے قیامت کے دن ذلیل اور رسوا نہ کرنا، اگرچہ ہم برے ہیں لیکن آپ ہماری برائی کو چھپالیجئے، اپنی مخلوق پر ظاہر نہ کیجئے۔ اس شعر پر حاجی امداد اللہ صاحب h ساری رات روتے رہے، لذتِ مناجات کا مزہ لیتے رہے۔ اللہ سے مانگنے میں جو مزہ آتا ہے،اس کو کیا بیان کروں ، اللہ سے مانگنے میں خود بہت مزہ ہے، اور اللہ کو دینے میںمزہ ہے، ہمیں مانگنے میںمزہ دیا اور اگر اللہ اپنی کسی حکمت کے تحت دینے میں دیر کرے تو ان سے مسلسل سوال کرنے اور مانگنے کا مزہ اور زیادہ بڑھ جاتا ہے ؎ 01:05:32) حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہر دُعا قبول ہوتی ہے مایوس نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ 01:06:42) اللہ تعالیٰ سے ہر حالت میں راضی رہنا فرض ہے۔۔۔۔حضرت امام غزالی رحمہ اللہ کے ایک مرید نے حضرت سے شکایت کی اور کئی بار تکالیف کا ذکر کیا تو حضرت نے فرمایا کہ شکر کرو کے اللہ نے گلے میں کفر کا طوق نہیں ڈالا۔۔۔ 01:10:54) امید نہ بر آنا امید بر آنا ہے اک عرضِ مسلسل کا کیا خوب بہانہ ہے جو صبر کرے برداش کرے قیامت کے دن جب انعام کو دیکھے گا تو کہے گا کہ افسوس کے میرا جسم کینچی سے کاٹا جاتا۔۔۔ 01:12:20) خواتین اپنے شوہر پر ٹو مت لگائیں۔۔۔خواتین کو اُن کے شوہروں سے متعلق تین نصیحتیں (ا)جب شوہر آئے تو دروازے تک ہنستے مسکراتے جاؤ(۲)جب اُن کا وقت آئے تو اپنے آپ کو تیار رکھو (۳)اُس کےماں باپ کا دل خوش کرو۔۔۔ 01:17:28) حضرت میر صاحب رحمہ اللہ نے کس کس محنت سے حضرت والا رحمہ اللہ کی کتابیں لکھی ۔۔۔اُس وقت ریکا ڈر ہوتے تھے بار بار ریوس کر کہ سنتے تھے اور لکھتے تھے اور لکھنے کہ وجہ سے ا ُنگلی پر نشان پڑ گیا تھا ۔۔۔ 01:22:11) مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جب دعا قبول ہونے میںدیر ہو تو سمجھ لو اللہ تعالیٰ تمہاری دعا سے بہت خوش ہو رہے ہیں، چاہتے ہیں کہ میرا یہ بندہ مجھ سے بہت دن تک مانگے ورنہ اگر اس کی آرزو ابھی پوری کردوں تو یہ پھر غفلت میں مبتلا ہو جائے گا۔ مولانا رومی فرماتے ہیں بلبل جب چہکتا ہے تو اس کو پکڑ کر پنجرہ میں ڈال لیتے ہیں تاکہ اس کی آواز سنتے رہیںاور کوّا جب کائیں کائیں کرتا ہے تو اس کو پتھر مار کر بھگا دیتے ہیں۔ مومن کی آواز اللہ تعالیٰ کو بلبل کی طرح محبوب ہے،اس لئے کبھی اس کو پنجرے میں ڈال دیتے ہیںتا کہ ذرا زیادہ دن تک ہم سے مانگتا رہے۔اسی طرح جب بندہ رو رو کے اللہ سے دعائیں کرتا ہے ، چاہے اپنی اصلاحِ نفس کے لئے کرے یا دنیا کی کسی پریشانی کے دور ہونے کے لئے کرے تو مولانا رومی حکایتاً بیان کرتے ہیں؎ فرشتے کہتے ہیں کہ اے اللہ! بہت دن سے تیرا یہ مومن بندہ رو رو کر دعا مانگ رہاہے، آپ اس کی دعا کو جلد قبول فرمالیجئے،اس کی حاجت کو جلد پورا کر دیجئے، کیا بات ہے کہ آپ دیر کررہے ہیں، فرشتے اللہ سے درخواست کرتے ہیں کہ آپ اپنے بندہ ٔمؤمن کی دعا کو جلد قبول کر لیجئے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ؎ اے فرشتو! مجھے اپنے اس مومن بندہ کی دعا میں بہت مزہ آرہا ہے، مجھے اس کی آواز بہت اچھی لگ رہی ہے جو کہتا ہے کہ یاخدا! میری پریشانی کو دور کردیجئے ، مجھے صحت دے دیجئے، یا میرے گناہوں کی گندی عادت کو مجھ سے چھڑا دیجئے، میں آپ کے غضب میں جی رہا ہوں، یہ جینا میرے لیے نامبارک جینا ہے۔ جو اللہ کو ناخوش کرکے اپنے نفس میں حرام خوشی درآمد کرتا ہے اس سے بڑھ کر منحوس اور ملعون خوشی، اللہ کے غضب والی خوشی دنیا میں نہیں ہے۔ 01:24:22) حضرت والا رحمہ اللہ کا سیلٹ کا بیان ۱۹۹۳ ء کا :قد افلح من زکھا وقد خاب من دسھا ۔۔۔ ’’قد افلح من زکہا‘‘ جس نے اپنا تزکیہ کرلیا اس کو دونوں جہاں کی فلاح مل گئی، وہ دونوں جہاں پاگیا، دنیا بھی پاگیا آخرت بھی، کیونکہ فلاں کے معنی ہی یہ ہیں ’’جمیع خیر الدین والدنیا‘‘ پوری دنیا دنیا کی فلاح پوری، آخرت کی فلاح۔۔۔۔ 01:26:59) ایک عورت نے ایک تابعی رحمہ اللہ کو گناہ کی دعوت دی تو اُن تابعی رحمہ اللہ نے اُس عورت سےتین سوال کیے (۱) جب موت کا فرشتہ سامنے آئے گا تو تجھے یہ گناہ یاد آئے گا؟ اُس نے کہا کہ نہیں (۲)جب اللہ کے پاس سوال و جواب ہوں گے تو اُس وقت یہ گناہ یاد آئے گا؟ اُس نے کہا کہ نہیں (۳)جب پلِ صراط پر چلے گی تو اُس وقت یہ گناہ یاد آئے گا؟تو اُس نے کہا کہ نہیں 01:31:52) لیلائوں کو دل سے نکالو پھر مجھے نہ پائو تو کہنا۔ ارے سارے عالَم کی لیلائوں کو، بادشاہوں کے تخت و تاج کو اور تمام لذات کو بھول جائوگے۔ اپنے قلب میں مولیٰ کو پاجائوگے۔ جنت اُدھار ہے، تمہارا مولیٰ اُدھار نہیں ہے، اسی لیے وَلَمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ جَنَّتَانِ کی ملا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے تفسیر کی کہ جو گناہ سے بچتا ہے، اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے، اس کو دو جنتیں ملیں گی۔ جَنَّۃٌ فِی الدُّنْیَا بِالْحُضُوْرِ مَعَ الْمَوْلٰی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی حضور اس کے قلب ک ونصیب ہوگی، ہر وقت اپنے مولیٰ کے ساتھ رہے گا، ایک لمحہ بھی غافل نہیں ہوگا،اور دوسری جنت ہے جَنَّۃٌ فِی الْعُقْبٰی بِلِقَآئِ الْمَوْلٰی جب ان آنکھوں سے مولیٰ کا دیدار ہوگا اس وقت اتنا مزہ آئے گا کہ دنیا کی تمام لیلائیں اور جنت کی تمام حوریں یاد نہ آئیں گی۔ جب اللہ کو دیکھیں گے تو تمام حوریں، لیلائیں مع جنت کے سب غائب ہوجائیں گی۔ اللہ تعالیٰ کی لذتِ دیدار کے سامنے کچھ یاد ہی نہ آئے گا ۔۔۔نفس کی اصلاح کرانے سے اللہ تعالیٰ دونوں جہانوں کی کامیابی دیتے ہیں۔۔۔ 01:35:39) کمینے پن کی کوئی حد ہوتی ہے جن کے بال سفید ہوگئے ہیں اُنکو تو چُوکنّا رہنا چاہیے۔۔۔ 01:37:33) پڑھائی اور بیان وغیرہ کےدرمیان اگر اُونگھ آنے لگے تو غزوہ اُحد کو یاد کر لو اوراللہ تعالیٰ سے دُعا کرلو۔۔۔ 01:38:54) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کوئی بات یا کوئی کلام دل میں آتے ہی نہ کر ڈالیے۔۔۔ 01:41:13) گناہوں سے بچنے کے لیے موت کا مراقبہ۔۔۔بیٹھ کریا لیٹ کر یہ مراقبہ کیا کریں ۔۔۔۔ 01:43:41) توبہ کی چار شرائط۔۔۔ 01:43:54) إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللهُمَّ أْجُرْنِي فِي مُصِيبَتِي، وَأَخْلِفْ لِي خَيْرًا مِنْهَا۔۔۔سے متعلق مرکز الِافتاء والاِرشاد کا ایک فتویٰ۔۔۔ 01:45:23) مدرسے کی جگہ سے متعلق ایک اعلان۔۔۔ 01:46:21) حضرت مولانا قاری محمد حنیف جالندھری صاحب کے مدرسے جامعہ خیر المدارس میں بیان سے متعلق اعلان۔۔۔اور دیگر اِعلانات۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries