مجلس ۱۵       جنوری ۲ ۲۰۲ء۱۱ بجے  :بری دوستی انسان کو تباہ کر تی ہے   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

07:54) کمر جھک کے مثلِ کمانی ہوئی کوئی نانا ہوا کوئی نانی ہوئی ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی

07:54) جناب سیدثروت صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھ کرسنائے۔۔۔ جس کو نسبت عطا ہے خدا سے ارض قائم ہے ایسے گدا سے بے نیازی ہے ہر ما سوا سے رابطہ گر قوی ہے خدا سے دل ہے ممنون ان کی عطا سے روح نادم ہے اپنی خطا سے ذکر تیرا کریں بیٹھ کر ہم چاہیے وہ زمیں دو سرا سے جس کو روشن کرے قدرت حق وہ دیا کیا بجھے گا ہوا سے مالک دو جہاں گر تو چاہے سلطنت دے درِ بے نوا سے آفتاب نبوت کا مطلع فوق تھا خلق کے آسرا سے شان عظمت جبال حرم کی کوئی پوچھے تو غار حرا سے مضطرب ہے مرا ذوق سجدہ سر کو پیغام ہے کچھ صبا سے مجھ پہ برسادے دریائے رحمت مانگتا ہے یہ اخترؔ خدا سے

10:12) حضرت والا دامت برکاتہم نے فرمایاکہ یہ اشعار نوجوانوں کے لیے بھی ہیں ۔۔۔۔

12:29) بچوں کو کس طرح اغواء کیا جارہا ہے اور پھر اُن سے طرح طرح کے کام لیے جاتے ہیں۔۔۔

14:14) جو عالم یا حافظ بن رہے ہیں شیطان اُن کو بہت ورغلاتا ہے۔۔۔

18:13) قیامت کے دن حسر ت ہوگی جب معلوم ہو گا کہ حُفاظِ کرام اور علماء کے کیا کیا درجات ہیں۔۔۔

20:39) حضرت سالم رضی اللہ عنہ کا واقعہ۔۔۔

25:25) طلباء سے نصیحت کہ ابھی سے ہی ہم نے اللہ والا بننا ہے جب ہم اللہ کوخوش کریں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں ایسے ایسے انعاما ت دیں گے کہ سوچ بھی نہیں سکتے۔۔۔

26:33) حضرت جلال الدین رومیؒ ارشاد فرماتے ہیں کہ اے اللہ !آپ نے اپنے کرم سے علم ودانش کاایک قطرہ جومجھے بخشاہے اسے اپنے غیرمحدوددریائے علم سے متصل فرمادیجئے۔جس کے قطرۂ علم کااتصال حق تعالیٰ کے غیرمحدوددریائے علم سے ہوگیاپھرسوچ لوکہ اس کاعلم کیساہوگا۔اس کاعلم کبھی ختم نہ ہوگا۔اس لئے اللہ والے علماء کے علم کوعلماء ظاہرنہیں پاسکتے۔جن کاقطرۂ علم کتب بینی سے متعلق ہے اورجن کاقطرۂ علم اللہ تعالیٰ کے دریائے غیرمحدودسے متصل ہے دونوں میں زمین وآسمان کافرق ہے۔اس کی مثال یہ ہے کہ جیسے ایک کنواں کھودااوراس میں باہرسے پانی بھردیایہ پانی ایک دن ختم ہوجائے گا۔یہ مثال ہے علماء غیرصاحب نسبت کے علم کی جنہوں نے کتب بینی سے علم کے حروف اورنقوش توحاصل کئے لیکن کسی ولی اللہ کی صحبت میں رہ کرعلم کی روح حاصل نہیں کی جس کے متعلق ایک محدث کاشعر ہے جومیرے خلیفہ بھی ہیں اورجن کوحضرت مولانایوسف بنوری صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے حدیث پڑھانے کے لئے جنوبی افریقہ بھیجاتھا،ان کایہ شعربہت عمدہ ہے ؎ اگرملی نہ غلامی کسی خدا کے ولی کی توعلم درسِ نظامی کوعلم ہی نہیں کہتے

29:28) ماں باپ کی جائز باتوں میں اطاعت کرنا فرض ہے۔۔۔

30:12) بُری دوستی انسان کو تباہ کرتی ہے۔۔۔جو انگریزی پڑھ کراللہ سے دور ہو رہے ہیں اُن سے مرغوب نہیں ہونااُن کو حقیر نہیں سمجھنا۔۔۔۔

37:29) عورتیں اُن عورتوں کی نقل نہ کریں جو بے حیّا ہیں جن کے پاس موبائل ہیں۔۔۔

38:02) اگرملی نہ غلامی کسی خدا کے ولی کی توعلم درسِ نظامی کوعلم ہی نہیں کہتے اورعلم صاحبِ نسبت کے علم کی مثال یہ ہے کہ جیسے کنواں کھودااوراتناکھوداکہ گہرائی میں پانی کے چشمہ تک پہنچ گئے اورزمین کے اندرسے سوتہ پھوٹ گیااب اس کنویں کاپانی کبھی ختم نہیں ہوگا۔اسی طرح جوعالم اللہ اللہ کرتاہے،کسی اللہ والے سے اللہ کے لئے دل وجان سے محبت کرتاہے اوراس سے اپنے نفس کی اصلاح کراتاہے،مجاہدہ کرتاہے،گناہوں سے بچنے کاغم اٹھاتاہے،اس اللہ والے کی برکت سے اپنے علم پرعمل کرتاہے تو اس کے قطرۂ علم کااتصال اللہ تعالیٰ کے غیرمحدوددریائے علم سے ہوجاتاہے۔۔۔۔

39:20) اصلاح کی فکر کرنی چاہیے ۔۔۔بچے تو زیادہ خطرے میں ہیں ان کو زیادہ محتاط رہنا ہے ۔۔۔

44:13) پھراس کاعلم ختم نہیں ہوتااوراس کوایسے ایسے علوم عطاہوتے ہیں کہ علماء ظاہرانگشتِ بدنداں رہ جاتے ہیں کہ یہ علوم اس کوکہاں سے آرہے ہیں جوکتابوں میں نہیں ملتے مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنے اندرعلوم انبیاء کافیضان دیکھتاہے بغیرکتاب واستاد کے۔اگلے شعرمیں مولانااس کی وجہ بیان کرتے ہیں ؎ خم کہ از دریا دراو راہے شود پیش او جیحون ہا زانو زند جس مٹکے کوسمندرسے خفیہ رابطہ ہوجائے تو اس کے سامنے بڑے دریائے جیحون اوردریائے فرات زانوئے ادب تہہ کرتے ہیں کیونکہ ان دریاؤں کاپانی خشک ہوسکتاہے لیکن اس مٹکے کاپانی خشک نہیں ہوسکتاکیونکہ اس میں خفیہ راستہ سے سمندرسے پانی آرہاہے۔یہی وجہ ہے بڑے بڑے علماء ظاہر جب کسی صاحبِ نسبت کی خدمت میں گئے تو حیران رہ گئے کہ یااللہ یہ کیاعلوم ہیں جن کی ہمیں ہوابھی نہیں لگی۔ سیدسلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ کاعلم معمولی نہیں تھا،شرقِ اوسط تک ان کے علم کا غلغلہ تھالیکن شروع میں یہ تصوف کے قائل نہیں تھے۔حضرت کے بھانجے حضرت مولاناظفراحمدعثمانی رحمۃ اللہ علیہ سے ان کے مراسم تھے۔ایک دفعہ مولانانے ان کومثنوی کاایک شعرلکھ کربھیج دیاجس سے سید صاحب کے دل پرچوٹ لگ گئی وہ کیاشعر تھا قال را بگذارمردِ حال شو پیش مردِ کاملے پامال شو قال کوچھوڑواورصاحب حال بنواورکیسے بنوگے؟کسی مردِ خداصاحبِ نسبت کے سامنے اپنے نفس کومٹادو۔

47:22) کوئی بھی گناہ کرنے سے پہلے یہ سوچ لو کہ کیا اللہ کے سامنے جب پیشی ہوگی تو اس وقت یہ گناہ یاد آئے گا؟ جب پل صراط پر چل رہے ہوں گے اُس وقت یہ گناہ یا د آئیں گے؟جب روح قبض کرنے کے لیے فرشتہ آئے گا اُس وقت یہ گنا ہ یا د آئے گا؟جب اعمال نامہ دیا جارہا ہوگا اُس وقت یہ گناہ یاد آئے گا؟۔۔۔۔

50:57) سید صاحب تھانہ بھون پہنچ گئے اورحضرت حکیم الامت مجددالملت مولانااشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی ایک ہی مجلس سے اتنے متاثرہوئے کہ مجلس کے بعد خانقاہ کی چوکھٹ پکڑکررونے لگے اورفرمایاکہ میں سمجھتاتھاکہ میں بہت بڑاعالم ہوں لیکن آج معلوم ہواکہ مجھے توعلم کی ہوابھی نہیں لگی،علم تو اس بوڑھے بوریہ نشین کے پاس ہے اور پھریہ شعر فرمائے ؎ جانے کس انداز سے تقریر کی پھر نہ پیدا شبۂ باطل ہوا آج ہی پایامزہ قرآن میں جیسے قرآں آج ہی نازل ہوا چھوڑکر تدریس ودرس ومدرسہ شیخ بھی رندوں میں اب شامل ہوا اس آخری شعر میں بظاہردرس وتدریس ومدرسہ کی توہین معلوم ہوتی ہے لیکن توہین نہیں ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ پہلے منطق وفلسفہ اورعلوم ظاہرہ کاغلبہ تھا،اب عشق ِ الٰہی کاغلبہ ہوگیا،علم درجہ ٔ ثانوی ہوگیااورمولیٰ درجۂ اولیں ہوگیا یعنی جوعلم مدرسوں میں عالم منزل مولیٰ کرتاہے پہلے اسی کوکافی سمجھتے تھے اوراللہ والوں کی صحبت سے جودردِ محبت اورآہ وفغاں اوران علوم پرعمل کی توفیق ملتی ہے جوہمیں بالغ منزل مولیٰ کرتی ہے اس کی دل میں اہمیت نہ تھی۔اب زاویۂ نگاہ بدل گیااوریقین آگیاکہ مولیٰ افضل ہے علم مولیٰ سے لیکن علم مولیٰ بھی ضروری ہے ورنہ مولیٰ کاراستہ کیسے معلوم ہوگااس لئے درس وتدریس بھی ضروری ہے،کچھ علماء ایسے ہونے چاہئیں جن کاعلم زبردست ہولیکن ان کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہوپھرایساعالم نورعلی نور ہوتاہے، جس کے علم پر اللہ کی محبت غالب ہوگئی اس کے علم میں چاشنی بڑھ جاتی ہے اور ایک عالم اس سے سیراب ہوتاہے لہٰذااس شعر سے راد مدرسہ چھوڑنانہیں ہے بلکہ مدرسہ کے علوم پر اللہ کی محبت کوغالب رکھناہے تاکہ عالم منزل بالغ منزل ہوجائے اور یہ نعمت خانقاہوں سے اہل دل کے سینوں سے ملتی ہے۔

59:13) اسلام آباد کے ایک دوست کی والدہ کا نتقال ہو گیا تھا اُن کی تسلی کے لیے بیان شروع ہوا۔۔۔حضرت والا دامت برکاتہم نے اپنی والدہ کے انتقال کا واقعہ بتایا کہ حضرت والارحمہ اللہ تشریف لائے تھے اور ہمیں نصیحت کی کہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ ۱۰ سال پہلے آپکی والدہ کا انتقال نہیں ہو ا اور دوسری وجہ یہ ہیکہ شکر کرو کہ آپکی والدہ اس حالت میں چلی گئی ورنہ ایسےایسے حالات ہوتے ہیں کہ انسان بالکل محتاج ہوجاتا ہے پھر حضرت والا رحمہ اللہ نے فرمایا کہ صبر کریں اور صبر کی تین تفسیریں بتائیں(۱) اَلصَّبر فی المصیبۃمصیبت میں صبر کرو۔(۲) الصبر عن المعصیۃ معصیت پر صبر کرو۔(۳)الصبر علی الطاعۃ عبادت پر قائم رہو ،اس کے علاوہ بھی اور نصیحتیں کی ۔۔۔

01:09:16) تعزیت صرف تین دن کی ہے ۔۔۔

01:10:00) حضرت والا رحمہ اللہ کی نصیحت کے ایک الماری میں دو خانوں میں برتن رکھے ہوئے تھے کسی نے خادم کو کہا کہ نیچے والے برتن کو اُوپر والے خانے میں رکھ دو۔۔۔۔فرمایا کہ اسی طرح ہمارے آباؤاجداد بھی زیادہ تر اُوپر ہیں جب یہاں سے کوئی انتقال کر جاتا ہے تو وہ بھی اُن کے پاس چلا جاتا ہے۔۔۔

01:11:38) ایصال و ثواب کا بہترین طریقہ کیا ہے۔۔۔؟

01:12:53) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ موت تو ایک پُل ہے جو ایک محبوب کو دوسرے محبوب سے ملاتا ہے۔۔۔

01:14:46) عبد الخالق صاحب جن کی والدہ کا انتقال ہو ااُن کو نصیحت کہ اپنی والدہ کے لیے ایصال وثواب کریں گے۔۔۔

01:17:20) حضرت مولانا عبدالرؤف سکھروی صاحب دامت برکاتہم کی حضرت والا دامت برکاتہم کو والد محترم رحمہ اللہ کے انتقال کے بعد نصیحتیں فرمایا کہ تم نےکتنی بھی بابا کی خدمت کی لیکن والدین کا حق کوئی بھی ادا نہیں کرسکتا اس لیےنصیحت کرتا ہوں (۱)کہ استغفار کیا کرو(۲)کچھ پڑھ کر ایصال و ثواب کیا کرو(۳) کچھ صدقہ جاریہ کیا کرو(۴) اس دُعا کا معمول بنا لو رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِيْ صَغِيْرَا۔

01:24:18) علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حقوق سمجھ آتے ہیں اور جب حقوق سمجھ آگئے تو حق بھی ادا کریں گے۔۔۔

01:24:54) دُعا۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries