مجلس    ۳۰       دسمبر۲ ۲۰۲ء             عشاء :اذکار اور وظائف کا مقصد   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:46) سو دفعہ کلمہ شریف پڑھنے کی فضیلت۔۔۔

01:47) ذکر کلمہ طیّبہ۔۔۔

04:31) اگر ہم پابندی سے ذکر کریں تو ایک دن آئےگا کہ بغیر ذکر کہ موت نظر آئے گی۔۔۔

05:26) ذکر۔۔۔

10:03) ذکر اسمِ ذات۔۔۔

15:47) ذکر سے کیا مراد ہے؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں: {فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنِ} [سورۃ البقرۃ، آیت:۱۵۲] حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے فَاذْکُرُوْنِیْ کی تفسیر بِالْاِطَاعَۃِ سے فرمائی اور اَذْکُرْکُمْ کی تفسیر بِالْعِنَایَۃِ سے فرمائی یعنی تم ہم کو یاد کرو اطاعت سے ہم تمہیں یاد رکھیں گے عنایت سے۔ (بیان القرآن، پارہ: ۲) اس تفسیر سے یہ اشکال حل ہوجاتا ہے کہ کیا نعوذ باللہ حق تعالیٰ مخلوق کو بھول جاتے ہیں جبکہ ان کے لیے نسیان محال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ مجرمین کو بھی یاد رکھتے ہیں مگر عتاب کے ساتھ اور مقبولین کو یاد رکھتے ہیں عنایت کے ساتھ۔

20:38) ذاکر گنہگار اور غافل گنہگار میں کیا فرق ہے؟۔۔۔

21:58) حضرت علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: تم لوگ مجھ کو یاد کرو طاعت سے یعنی قلب سے اور قالب سے بھی پس ذکر عام ہے خواہ زبان سے ہو یا قلب سے ہو یا جوارح سے ہو۔(فالاوّل) پس اوّل ذکر لسانی ہے جو شامل ہے تسبیح و تحمید و قرأت کلام اللہ وغیرہ پر۔(والثانی) اور ثانی اللہ کی مخلوق میں غور و فکر کرنا ہے تاکہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی معرفت اور ان کی ربوبیت کے اسرار منکشف ہوں (والثالث) اور تیسرا یہ کہ اپنے اعضاء سے اللہ تعالیٰ کے احکام بجالائے اور ان کو نافرمانی سے محفوظ رکھے۔ پس اللہ کا ذکر ان تینوں قسموں پر شامل ہے۔ اہلِ حقیقت نے بیان فرمایا ہے کہ ذکر کی حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی محبت غالب ہوجائے اور ماسوی اللہ کی محبت مغلوب ہوکر کالعدم ہوجائے۔ خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ جب مہرنمایاں ہوا سب چھپ گئے تارے وہ ہم کو بھری بزم میں تنہا نظر آئے اسی حقیقت کا نام تبتُّل شرعی ہے۔ جیسا کہ بیان القرآن میں تحریر ہے کہ تبتُّل نام ہے تعلق مع اللہ کا تعلق ماسوی اللہ پر غالب ہوجانا نہ کہ ترکِ تعلقات ضروریہ کا۔ جیسا کہ جو گیانِ ہند اور جہلائے صوفیہ نے سمجھا ہے۔ (سورۃ مزمل، پارہ: ۲۹، بیان القرآن)

24:23) اذکار و وظائف کا مقصد: دین صرف تسبیح گھمانے کا نام نہیں۔ وظائف کا مقصد ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں۔ وظائف اسی لیے بتائے جاتے ہیں کہ یہ استعداد پیدا ہوجائے۔ ورنہ اگر اﷲ اﷲ تو کررہے ہو لیکن گناہوں سے کوئی پرہیز نہیں تو ایسے وظیفے بالکل بے کار ہیں کیونکہ ان کا مقصدتو حاصل ہی نہیں ہوا۔ موٹے موٹے گناہ کا علم تو ہر شخص کو ہوتا ہے حتیٰ کہ خود گنہگارجانتا ہے کہ یہ گناہ ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ باریک باریک گناہ نظر آنے لگیں اور ان سے بچنے کا اہتمام طبیعت میں پیدا ہوجائے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries