تراویح  مجلس ۵۔ اپریل ۳ ۲۰۲ء     :اپنی عبادت کے بعد کبھی اس پر فخر نہ کیجئے  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

00:34) اللہ تعالی بغیر استحقاق کے اپنا بنالیں ۔۔کریم کا مطلب۔۔۔

03:11) عظاء اور خطاء ۔۔

08:38) قرآن پاک کی تصحیح سے متعلق نصٰحت۔۔

10:18) قرآن پاک صحیح پڑھنا فرض ہے۔۔

17:41) تکبر اور اکڑ کے علاج پر اہم ملفوظ کہ ہم دین کا کام کررہے ہیں یا نیک کام کرکے اکڑنا اُن کے لیے اہم ملفوظ جزاء بھی دراصل عطاء ہے: میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب پھولپوری فرماتے تھے کہ جنت بھی جو اللہ تعالیٰ دیں گے، وہ ہمارے عمل کا بدلہ نہ ہوگا، وہ بھی اللہ تعالیٰ کی عطا ہوگی اور دلیل بھی میرے شیخ نے قرآن شریف سے کیسی پیش کی کہ آپ کو مزہ آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم کو جو جنت دوں گا تو جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ یہ میری طرف سے بدلہ ہوگا لیکن یہ بدلہ تمہارے عمل کا نہیں ہوگا۔ عَطَائً یہ بھی میری عطا ہوگی۔ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ کے بعد عَطَائً نازل کردیا کہ یہ جزاء بھی دراصل میری عطا ہے، بخشش ہے۔

22:50) میرے شیخ فرماتے تھے کہ آخرت میں نیک عمل کا جو بدلہ ملے گا۔ جنت ملے گی یہ بھی حقیقت میں ان کی عطا ہے لیکن جزاء کیوں فرمایا؟ یہ مالک تعالیٰ شانہٗ کی غایت کرم اور زبردست مہربانی ہے۔ جیسے کسی بچے کے ہاتھ کو باپ اپنے ہاتھ میں پکڑ کر کوئی خط لکھوادے اور بیٹے سے کہے کہ واہ بیٹے! تم نے بڑا اچھا خط لکھا حالانکہ وہ تو بابا نے خود لکھوایا ہے لیکن بچہ کی طرف نسبت کررہا ہے۔ شاباشی دے رہا ہے کہ شاباش بیٹا! تم نے بڑا اچھا خط لکھ دیا۔ ایسے ہی اللہ تعالیٰ کی توفیق سے یہ نماز روزہ ہو رہا ہے لیکن ہمارا دل خوش کرنے کے لیے فرمایا کہ جنت تمہارے اعمال کی جزا ہے تمہارے ربّ کی طرف سے۔ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ لیکن اے میرے پیارے بندو! جَزَآئً کہہ رہا ہوں۔ شاباشی کے لیے مگر حقیقت میں ہے عَطَآئً یہ عطاء ہے، میرا جزاء کہنا بھی عطا ہے۔ تمہارے عمل کے بدلہ میں میرا یہ لفظ جزا بھی عطا ہے تمہارا دل خوش کرنے کے لیے۔ جَزَآئً مِّنْ رَّبِّکَ عَطَآئً حِسَابًا میرے شیخ کے علوم کو ذرا دیکھئے جن کے لیے حضرت حکیم الامت مجدد الملت تھانوی نے فرمایا تھا کہ آپ حامل علومِ نبوت بھی ہیں اور حامل علوم ولایت بھی ہیں۔ حضرت پر علوم الہام ہوتے تھے۔ کیا علم عظیم ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جو کچھ ہم کو جزا دیں گے وہ سب اللہ کی عطا ہے۔

عطاء جو جزاء سے تعبیر کرنے کی دوسری عجیب مثال: اس کے بعد حضرت جو دوسری مثال دیتے تھے۔ وہ بھی پیش کرتا ہوں اور میرے قلب میں جو مثال آئی ہے وہ بھی پیش کروں گا۔ اپنے شیخ کی مثال کو اوّلیت دیتا ہوں۔ فرمایا کہ اگر بادشاہ شاہی محل بنوارہا ہو اور گائوں گائوں اعلان کردے کہ اس کی تعمیر میں رعایا بھی چندہ دے سکتی ہے تو ایک دیہاتی اپنی جھونپڑی میں سے ایک سڑا ہوا بانس جس کو دیمک کھاگئی ہو نکال کر بادشاہ کے ہاتھ میں رکھ دے کہ یہ بانس بھی اپنے شاہی محل میں لگادیجئے اور بادشاہ مسکراتے ہوئے اس کو رکھ لے اور کہہ دے شاباش! تو فرمایا کہ جیسے بادشاہوں کی تعمیر میں دیہاتیوں کا سڑا ہوا بانس کوئی حقیقت نہیں رکھتا۔ بادشاہ کی شاباشی اور جزا دراصل اس کی عطا ہے۔ اسی طرح حق تعالیٰ شانہٗ کی عظمت غیرمحدود کا حق ہماری عبادات سے ادا نہیں ہوسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی عظمت غیرمحدود ہے اور ہماری عبادت محدود ہے لہٰذا سے غیرمحدود کا حق ادا ہوسکتا ہے، اس لیے اللہ والے نیکیاں کرکے ڈرتے رہتے ہیں کہ معاف کردیجئے ہم سے حق ادا نہیں ہوا۔

31:10) پیر صاحب اور جوتیوں کا صدقہ ..لطیفہ۔۔

31:27) نماز کے بعد سیّد الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے استغفار کی حکمت: سرورِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم سیّد الانبیاء ہونے کے باوجود نماز کے بعد سلام پھیرتے ہی تین بار استغفراللہ، استغفراللہ، استغفراللہ پڑھتے تھے۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ حضو رصلی اللہ علیہ وسلم کا یہ استغفار کس وجہ سے تھا کیونکہ آپ تو معصوم تھے، گناہ تو آپ سے ہو ہی نہیں سکتا تھا اور پھر جیسی عظیم الشان عبادت کے بعد استغفار کے کیا معنی ہیں۔ تو حضرت گنگوہی نے خود جواب دیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم اس لیے استغفار کرتے تھے کہ اے اللہ! آپ کی عظمت غیرمحدود ہے لہٰذا آپ کی شان عظمت کے لائق میری نماز نہیں ہے، میری محدود بندگی آپ کی غیرمحدود عظمت کے شایانِ شان نہیں ہوسکتی لہٰذا سیّدالانبیاء کا استغفار کسی خطا پر نہیں ہے کیونکہ صدور معصیت نبی پر محال ہے بلکہ اے اللہ! اس بات پر ستغفار کرتا ہوں کہ آپ کی عظمت کا حق نماز میں مجھ سے ادا نہیں ہوا۔

33:02) عبادت پر ناز نہ کیجئے:

37:50) کسی کو بھی حقیر اور کم تر نہ سمجھیں۔۔

41:53) شیخ العرب والعجم حضرت والا مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں اب میری مثال سن لیجئے جو مجھے اللہ تعالیٰ نے میرے ہی بزرگوں کے صدقہ میں عطا فرمائی ورنہ میں کہاں سے لائوں گا۔ ان اللہ والوں کی جوتیاں جو اختر نے اُٹھائیں، ان ہی کے صدقہ میں آپ لوگ آرہے ہیں۔ سن لو! اس بات کو۔ میری قابلیت سے آپ لوگ نہیں آرہے ہیں۔ میرے اوپر اللہ والوں کی نظر پڑی ہے۔

44:56) عبادت پر ناز نہ کیجئے: لہٰذا اپنی عبادت کے بعد کبھی اس پر فخر نہ کیجئے۔ مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ نیکی کر، دریا میں ڈال۔ بس اللہ کی رحمت پر آس لگائے رہے، اپنی نیکیوں پر فخر و ناز نہ کیجئے۔ کوئی پوچھے کہ کتنے حج کئے؟ مت بتائیے کہ میرا اور میرے اللہ کا معاملہ ہے۔ کوئی پوچھے کہ کتنا تہجد پڑھتے ہو؟ مت بتائیے کہ میرا اور میرے اللہ کے درمیان معاملہ ہے۔ اپنی نیکیوں کو ظاہر مت کیجئے اور جو پوچھنے والے ہیں ان سے کہئے کہ معافی چاہتا ہوں جناب یہ مناسب نہیں ہے۔ بزرگوں نے منع کیا ہے کہ کسی کی ذاتی عبادات کو مت پوچھو۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries