مرکزی بیان۱۰ ۔اگست۳ ۲۰۲ء     :  اللہ کا راستہ قیل و قال سے نہیں اتباعِ رہبر سے طے ہوتا ہے !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

01:59) بیان سے پہلے مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت والا رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے۔۔۔

سیہ دیدہ میں پوشیدہ جمالِ حق کی تابانی صحابہ کے دلوں کو جس نے بخشا نورِ یزدانی

وہ سلطانِ جہاں تھے قلب میں تھا فقر پنہانی مقامِ عبدیت کے ساتھ تھی ان کی جہاں بانی

خدادیدہ نظر کو چونکہ دیکھا تھا صحابہ نے وہ ایماں آج کیسے پاسکے گا کوئی ربانی

تجلی گاہ جو جاں تھی اسی روح منور سے ہر اک مومن کو ہوتی تھی عطاء معراجِ روحانی

مبارک ان کی آنکھوں کو کہ جن آنکھوں نے دیکھے تھے نبی کے چہرۂ انور پہ جلوہ ہائے ربانی

جنہوں نے مال و زر بھی آبرو بھی جان بھی دے دی کوئی جانے گا کیا ان کا مقامِ کیفِ احسانی

ہمیشہ ہر صحابی راہِ سنت کا تھا شیدائی وہ دیوانے تھے لیکن خاک پا تھی ان کی فرزانی

یہ کیسا معجزہ تھا دوستو! شانِ رسالت کا شتربانوں کو بخشے جس نے آدابِ جہانبانی

خدا ان سے ہے راضی اور وہ رب سے ہوئے راضی شہادت اس حقیقت پر ہیں خود آیاتِ قرآنی

بھلا غیرِ صحابی پا سکے گا مرتبہ اُن کا کہ ہے منصوص اُن پر رحمت حق فضلِ رحمانی

صحابہ کی محبت کو بھی ہم ایمان سمجھتے ہیں کہ اُن کے دم سے اُمت کو ملی تعلیمِ قرآنی

صحابہ کی حیاتِ باوفا تاریخ ایماں ہے جو اخترؔ دے رہی ہے رات دن پیغامِ ایمانی

12:07) تصویر سے متعلق اعلان۔۔۔اس تصویر کے بعد معاملہ کہاں سے کہاں تک چلا جاتا ہے۔۔۔

17:05) جناب مصطفیٰ مکی صاحب نے حضرت مولانا خالد اقبال تائب صاحب دامت برکاتہم کے اشعار پڑھے۔۔۔

23:35) اللہ والوں کے ساتھ کتنا رہنا ہے۔۔۔اللہ والے انجام کے اعتبار سے اپنے آپ کو جانور سے بھی کمتر سمجھتے ہیں۔۔۔

27:08) مجاھدے کی چار تفسیریں۔۔۔

33:56) یہ جملہ کے لوگ کیا کہیں گے۔۔۔

35:54) سمعنا کے بعد اطعنا ضروری ہے اور ہر سمعنا قبول نہیں جب تک کہ اطعنا نہ ہو۔۔۔

36:37) یہ جملہ کے لوگ کیا کہیں گے حضرت والا رحمہ اللہ کا مضمون: ارشاد فرمایا کہ ایک بہت اہم بیماری کا علاج بتاتا ہوں، اس خطر ناک بیماری کا نام ہے ’’ لوگ کیا کہیں گے؟‘‘یہ بیماری ایسی بلا ہے کہ انسان کو تباہ کردیتی ہے۔ اسی بیماری کی وجہ سے ابو طالب مقصود سے رہ گئے حالانکہ وہ حضور ﷺکے عاشق اور جاں نثار تھے۔ حضور ﷺ نے مرتے وقت ان سے فرمایا کہ ایک دفعہ کلمہ کہہ دو اُحَاجُّ بِہَا لَکَ عِنْدَ اللہِ اسے اپنے رب کے سامنے حجت میں پیش کروںگا، اس وقت ابو جہل بھی پاس بیٹھا تھا کہنے لگا اَتَرْغَبُ عَنْ مِّلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ یعنی کیا اعراض کرتے ہو قریش کی ملت سے؟ تو ابو طالب حضور ﷺ سے کہنے لگے میرے بھتیجے!لَوْلَا اَنْ تُعَيِّرَنِيْ قُرَيْشٌ يَقُوْلُوْنَ مَا حَمَلَهٗ عَلَيْهِ اِلَّا جَزَعَ الْمَوْتِ لَاَقْرَرْتُ بِهَا عَيْنَكَمیں تمہاری آنکھیں ٹھنڈی کر دیتا مگر لوگ کہیں گے کہ ابو طالب نے عذاب کے ڈر سے اپنا دین چھوڑ دیا (فتح الباری:(دار الکتب العلمیۃ۔بیروت) ؛ ج ۸ ص ۱۶۶)۔ غرض آخری کلمہ ان کی زبان سے یہ نکلاعَلٰی مِلَّۃِ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ میں عبد المطلب کے دین پر ہوں۔ غرض یہ عار کی بیماری وہ بلا ہے جس کی وجہ سے ابو طالب ایمان نہ لاسکے۔ پس اس کا علاج کرو،اور اس کا علاج وظیفوں کا پڑھنا نہیں ہے بلکہ عشق پیدا کرلو۔ یہ مرض اللہ تعالیٰ کے عشق سے ضرور جاتا رہے گا۔ مولانا رومیh فرماتے ہیں ؎ ہر کرا جامہ ز عشقے چاک شد او ز حرص و عیب کلّی پاک شد یعنی جس کو محبوب ِحقیقی کا عشق ہوجائے وہ حرص اور تمام نقائص اور اخلاق ِذمیمہ سے پاک ہوجاتا ہے ؎ شاد باش اے عشقِ خوش سودائے ما اے طبیبِ جملہ علتہائے ما اے عشق ِحقیقی! خوش رہ،تُو میری ایسی اچھی بیماری ہے کہ تجھ سے تمام بیماریوں کا علاج ہو جاتا ہے یعنی اے عشق!تُو ایسا ہے کہ تیری بدولت خیالات درست ہو جاتے ہیں اور تجھ سے سب امراض کا علاج ہو جاتا ہے ؎ اے دوائے نخوت و ناموسِ ما اے تو افلاطون و جالینوسِ ما اے عشق!تُو ہمارے لئے نخوت و ناموس کی دوا ہے، تو ہمارے لئے افلاطون و جالینوس ہے۔ اور فرماتے ہیں ؎ عشق آں شعلہ است کو چوں بر فروخت ہر چہ جز معشوق باقی جملہ سوخت عشق وہ شعلہ ہے کہ جب وہ روشن ہوتا ہے تو وہ سوائے محبوب کے سب کو فنا کر دیتا ہے۔

43:42) لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ اس بیماری کا واحد علاج عشق ہے، مولیٰ سے عشق پیدا کر لو، جب دل میں عشق کا شعلہ روشن ہوگا تو صرف اللہ دل میں رہ جائے گا اور باقی سب بتوں کو جلاکر خاک کر دے گا۔اپنی نخوت و ناموس کی بھی پرواہ نہ رہے گی، لوگوں کے طعن و تشنیع کی بھی پرواہ نہ ہوگی، پھر تو آدمی یہ سوچے گا کہ میرا مولیٰ کس بات سے خوش ہوتا ہے اور کس بات سے ناراض ہوتا ہے، پھر یہ نہیں سوچے گا کہ مخلوق کس بات سے خوش اور ناراض ہوتی ہے۔

48:01) ایک غلط رسم کا علاج کہ لوگ کہتے ہیں کہ بادشاہی جو خیر یہ ہندؤں کا طریقہ ہے اسی طرح سلام کرنے کے بعد سینے پر ہاتھ رکھنا یہ بھی منع ہے۔۔۔

49:27) اللہ کا راستہ قیل و قال سے نہیں اتباع ِرہبر سے طے ہوتا ہے ۹؍ رجب ۱۳۸۹؁ھ مطابق۲۱؍ ستمبر۱۹۶۹؁ء (ایک صاحب جو قیل و قال، فلسفہ و منطق کی بحث و مباحثہ کے عادی ہیں، ان سے فرمایا کہ) آپ نے اگر مٹھائیوں کی معلومات کر بھی لی لیکن مٹھائی کا مزہ جب آئے گا جب معلومات کو ماکولات بنالو گے(یعنی مٹھائی کھا لوگے)۔ معلوم ہوا کہ معلومات مقصود نہیں معمولات مقصود ہیں یعنی عمل مقصود ہے۔ اور یہ عقل کے بھی خلاف ہے کہ مٹھائی تو سامنے رکھی ہے لیکن آپ اس کے اجزاء معلوم کر رہے ہوں کہ اس مٹھائی کو میں جب کھائوں گا جب اس کے اجزاء کے بارے میں معلومات حاصل کر لوں۔ارے! مٹھائی کھانے میں اتنی دیر بھی کیوں کی؟مٹھائی زبان پر رکھ کر دیکھتے تو فوراً مزہ آتا اور اس کے اجزاء بھی خود بخود معلوم ہوجاتے۔ معلومات میں وہ مزہ کہاں جو مٹھائی کے کھانے میں ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو قیل و قال چھوڑ دو، عمل شروع کردو، ذکر میں لگ جائو، کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرو اور اس کی تجویزات پر عمل کرکے دیکھو، پھر یہ سارے وساوس اور قیل و قال خود ختم ہوجائیں گے۔ ایسی لذتِ قرب حاصل ہوگی کہ پھر فلسفہ ومنطق کا خیال بھی نہ آئے گا،پھر اختلافی مسائل بھی نظر نہ آئیںگے، پھر یہ وسوسہ بھی نہ آئے گا کہ نہ معلوم یہ راستہ اللہ تک پہنچتا ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اس راستے کی لذت خود دلیل ہو گی کہ یہی اللہ کا راستہ ہے۔ مثال کے طور پر تم ایک سر سبز و شاداب باغ کی طرف بڑھ رہے ہو تو اگرچہ ابھی باغ سے دور ہو لیکن کیونکہ سمت صحیح ہے اس لئے اُدھر سے جو ہوائیں آئیں گی، وہ خوشبوئیں ساتھ لائیں گی،اور جتنا جتنا راستہ طے ہوتا جائے گا اور باغ کا قرب بڑھتا جائے گا اتنا ہی ہوائیں زیادہ مشکبار ہوتی جائیں گی۔ اس وقت دل خود گواہی دے گا کہ ہاں بھئی! ہم مقصود کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیا اس وقت کسی فلسفی اور منطقی کو ڈھونڈو گے کہ فلسفہ و منطق کی رو سے باغ کا وجود ثابت کردے تو مانوں گا؟ ارے میاں! اس وقت یہ قیل و قال یاد بھی نہیں آئیں گے۔ اس وقت روح پر ایسی مستی ہوگی جس کی لذت ِقرب کے آگے سارے فلسفے ہیچ ہو ں گے،وہ لذت ِقرب باغ کے وجود پر خود دلیل ہوگی۔ اسی طرح اللہ کا راستہ جوں جوں قطع ہوتا جاتا ہے لذتِ قرب بڑھتی جاتی ہے، پھر فلسفہ و منطق، دلائل و شواہد کی حاجت نہیں رہتی بلکہ یاد بھی نہیں آتے۔۔۔

55:32) اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکار کرنا۔۔۔آل میگنٹ سسٹم ۔۔۔ایک بزرگ کا واقعہ۔۔۔

59:07) اللہ کا راستہ قیل و قال سے نہیں اتباع ِرہبر سے طے ہوتا ہے: اسی طرح اللہ کا راستہ جوں جوں قطع ہوتا جاتا ہے لذتِ قرب بڑھتی جاتی ہے، پھر فلسفہ و منطق، دلائل و شواہد کی حاجت نہیں رہتی بلکہ یاد بھی نہیں آتے، پھر تو یہ حالت ہوتی ہے ؎ آفتاب آمد دلیلِ آفتاب گر دلیلت باید از وے رو متاب سورج کا طلوع ہونا خود سورج کے وجود کی دلیل ہے۔مولانا رومیh نے ایک واقعہ لکھا ہے کہ ایک شخص کہہ رہا تھا کہ مجھے آفتاب کی دلیل پیش کرو کہ کہاں ہے؟ دوسرے نے اس کی ٹھوڑی پکڑ کر اس کا منہ سورج کے سامنے کردیا، آنکھیں سورج کی روشنی سے خیرہ ہوئیں تو منہ پھیرنے لگا، اس شخص نے کہا کہ اگر آفتاب نہیں ہے تو تُو منہ کیوں پھیر رہا ہے؟ یہ تیرا منہ پھیرنا یہی دلیلِ آفتاب ہے ۔ اس لئے قیل و قال اور بحث و مباحثہ سے اللہ کا راستہ طے نہیں ہوتا، عمل سے طے ہوتا ہے۔ یہاں معلومات مقصود نہیں ہیں، معمولات مقصود ہیں۔عمل شروع کردو تو اللہ سے قریب ہوتے جائو گے ورنہ جہاں ہو وہیں کے وہیں رہو گے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ آپ کو یہاں سے نارتھ ناظم آباد جانا ہوتو اگر آپ نے یہاں سے نارتھ ناظم آباد تک کا نقشہ بنوا کر سامنے رکھ لیا اور بحث و مباحثہ شروع کردیا کہ فلاں سڑک سیدھی نارتھ ناظم آباد کو جاتی ہے اور فلاں سڑک کے وہاں تک پہنچنے میں اختلاف ہے اور یہاں سے وہاں تک کا فاصلہ کتنا ہے؟ اور کون سا راستہ مختصر ہے؟ تو کیا اس قیل و قال سے راستہ طے ہوجائے گا؟ جہاں بیٹھے ہو وہیں کے وہیں رہو گے۔ اگر وہاں تک پہنچنا تھا تو اس قیل و قال میں کیوں بے کار وقت ضائع کیا، فوراً کسی رہبر کے ساتھ راستہ چلنا شروع کر دیتے تو پہنچ جاتے۔ اسی طرح اللہ کا راستہ ہے جو شخص قیل و قال اور بحث و مباحثہ میں پڑے گا مقصود سے محروم رہے گا اور جو عمل شروع کردے گا کامیاب ہوجائے گا،اور قیل و قال وہی کرتا ہے جو دراصل عمل نہیںکرنا چاہتا۔دوسری مثال:بعض دفعہ آسمان و زمین ملتے ہوئے نظر آتے ہیں اور آدمی سوچتا ہے کہ ایک حد ایسی ہے جہاں راستہ بند ہے تو یہ ایک وہمی چیز ہے،راستہ پر چلنا شروع کر دو تو معلوم ہوجائے گا کہ زمین و آسمان میں کتنا فاصلہ ہے، اس وقت راستہ کھلا ہوا معلوم ہوگا اور سارے اشکالات رفع ہوجائیں گے۔

01:01:39) مظاہر حق جدید ایمان کا بیان:۔۔۔یہود ونصاری کی ہر بات میں نقل کرنا حدیث شریف اور اسکی تشریح۔۔۔

01:04:16) ایک مرض چلا ہوا ہے کہ مرد عورت برابر برابر:آیت کی تفسیر۔۔۔

01:19:31) 1:19:31 01:20:14) تفسیر مفتی اعظم شفیع صاحب رحمہ اللہ بیان ہوئی۔ آیت ترجمہ تفسیر۔۔

01:25:16) توبہ کرنے والا اللہ کا پیار ہوجاتا ہے۔۔

01:26:53) حضرت عبد اﷲ ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور زازان کا واقعہ کیسے اللہ تعالی نے جذب فرمایا۔۔

01:30:54) کچھ اعلانات۔۔

01:33:00) دعا۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries