اتوار مرکزی مجلس ۲۸    جنوری  ۴ ۲۰۲ء     :دنیا کا سارا عیش ایک دھوکہ ہے    !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر بلاک ۱۲ کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

13:06) بیان سے پہلےجناب مفتی انوارالحق صاحب نےحضرت میر صاحب رحمہ اللہ کے اشعار پڑھے جو حضرت والا رحمہ اللہ کی محبت میں کہے گئے۔۔۔

نہیں تیس برسوں میں اِک لمحے کو بھی سنی میں نے حضرت سے غفلت کی باتیں

یہ کیسی شرافت ہے ، کیسی نجابت، کریں جلوتوں میں شرافت کی باتیں

مگر جا تے ہیں خلو توں میں جب اپنی، حسینوں سے کرتے ہیں ذلت کی باتیں

زنا کار آنکھوں کا ، فاسق خدا کا، نبی نے ہے ملعون جس کو پکارا

خریدے نظر سے جو لعنت خدا کی، وہ کیا کر رہا ہے ولایت کی باتیں

نہیں چھو ٹتی لت اگر معصیت کی، تو رکھ دے سر اپنا تُو چوکھٹ پہ رب کی

کہ محبوب ہیں بارگاہِ صمد میں، ندامت کے آنسو ، ندامت کی باتیں

خود اپنی تمنائوں کا خون کرنا، نہیں کام اے دل ہے یہ ہیجڑوں کا

حسینوں سے نظریں بچا کر تڑپنا، یہ ہیں شیرمردوں کی ہمت کی باتیں

اے زاہد تو کس وہم میں مبتلا ہے، کہ نامِ طریقت سے شعلہ بپا ہے

شریعت کی باتیں محبت سے کرنا، یہی تو فقط ہیں طریقت کی باتیں

کہاں کا گنہ معصیت کیسی یارو، تم اندھے ہو کیا اس حقیقت کو جانو

نہیں تیس برسوں میں اک لمحہ کو بھی، سنی میں نے حضرت سے غفلت کی باتیں

13:07) مفتی انوارالحق صاحب حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کے اشعار پڑھ رہے تھے اس پر کئی دفعہ فرمایا کہ ماشاء اللہ بہت دردِدل سے پڑھ رہے ہیں حضرت والا رحمہ اللہ اور حضرت میر صاحب رحمہ اللہ یاد آگئے اور فرمایاکہ ماشاء اللہ مفتی انوارالحق صاحب نے حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کی بہت خدمت کی ہے ایسی خدمت کہ جس میں کوئی غرض نہیں اور کسی سے دوستیاں نہیں خطوں کے جوابات اور پھر حضرت میرصاحب رحمہ اللہ مفتی انوارالحق صاحب سے مواعظ لکھواتے تھے اور اس دوران حضرت میر صاحب رحمہ اللہ کی آنکھ لگ جاتی بے ہوش ہوجاتے اور یہ کھڑے رہتے جب حضرت کی آنکھ کھلتی تو فرماتے ہاں بھائی کہاں سے لکھ رہے تھے۔۔۔

پھر شیخ کی خدمت سے متعلق فرمایا کہ یہ قسمت والوں کو میسر ہوتی ہے۔۔۔

15:14) شیخ کی خدمت سے کیا ملتا ہے؟۔۔۔اللہ والوں کا خوش ہونا اللہ کا خوش ہونا ہے،حضرت والا رحمہ اللہ نے اپنے شیخ حضرت عبدالغنی پھولپوری صاحب رحمہ اللہ کی کس قدر خدمت کی۔۔۔

22:41) اللہ کے لیے اللہ والوں کے پاس جانے سے کیا نعمت ملتی ہے۔۔۔

24:53) اشعار مکمل کیے۔۔۔ مر ے شیخ کے پاس آ کر تو دیکھو، محبت کے دن ہیں ، محبت کی راتیں ارے وہ تو خود ہیں سراپا محبت، سنو گے بس ان سے محبت کی باتیں محبت کو کوئی اگر جسم ملتا، وہ ہوتا سراپا میرے شیخ ہی کا کہ ہم نے نہیں دیکھی ایسی محبت، نہ ایسی سنی ہیں محبت کی باتیں خدا جن تمنائوں سے بھی ہو ناخوش، دلیری سے ہر اک تمنا کا خوں کر کہ ہیں یہ بظاہر تو حسرت کی باتیں، مگر درحقیقت ہیں عشرؔت کی باتیں

29:49) دوسری شادی سے متعلق نصیحت،فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے دوسری شادی کا حکم نہیں دیااور یہ بھی کہ کبھی مزاح میں بھی اپنی بیوی سے دوسری شادی کی بات مت کرنا کیونکہ وہ حقیقت سمجھے گی اور آہستہ آہستہ اُس کے اخلاق میں فرق آجائے گا۔۔۔

38:24) عشقِ مجازی والا کبھی بھی سکون سے نہیں رہ سکتا اس کی یہ حالت ہو جاتی ہیکہ لایموت فیھا ولا یحییٰ۔

39:43) تزکیہِ نفس کی اہمیت سے متعلق حضرت والا رحمہ اللہ کی نصیحت کہ یہ کتنا ضروری ہے۔۔۔تزکیہ نفس سے اعمال کا قبول ملتا ہے۔۔۔

44:59) دین کے سب شعبے برحق ہیں اور سب ایک مٹھی کی مانند ہیں۔۔۔

46:58) دین پر عمل کرنے والوں کو مجاہدات کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے ان مجاہدات سے گھبرانا نہیں چاہیے۔۔۔

51:01) وقت لگانے والے ایک صاحب کو اِدھر اُدھر دیکھنے پر ڈانٹ اور نصیحت۔۔۔

57:42) حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ گھر کے آدمیوں نے یا صحابۂ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین نے ایک بکری ذبح کی ( اور اس میں سے تقسیم کر دیا )حضورﷺ نے دریافت فرمایا کہ کتناباقی رہا؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا کہ اور کچھ باقی نہ رہا، صرف ایک دست گوشت باقی رہ گیا (باقی سب تقسیم ہوگیا )، رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ جتنا تم نے دے دیا،وہ سب وہاں باقی ہوگیا،ہمیشہ رہنے والا ہوگیا سوائے اس دست کے یعنی جو کچھ اللہ کے راستہ میں خرچ کر دیا، اس کا اجر آخرت میں ملے گا۔ میں تو کہتا ہوں نبی کریمﷺکی رسالت کی ایک دلیل آپ کا کلام بھی ہے، ایک نبی امی کے کلام میں اتنی فصاحت و بلاغت کا ہونا دلیل ہے آپ کی رسالت کی۔

59:52) دنیا کا سارا عیش ایک دھوکہ ہے اِرشاد فرمایا کہ جس کی بینائی صحیح ہو اور بیمار بھی نہ ہو تو اس کی نظر صحیح دیکھتی ہے، اور جس کی آنکھ میں یرقان ہو،اس کو سفید دیوار بھی پیلی نظر آتی ہے۔ ساری دنیا کی نظریں بیمار ہیں، صرف حضورﷺکی نظرپاک اور صحیح دیکھنے والی ہے کیونکہ آپ کی نگاہ ِپاک میں وحیٔ الٰہی کا سرمہ لگا ہوا ہے، حق تعالیٰ فرماتے ہیں: ﴿ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰى ؁﴾ (سورۃ النجم:آیۃ ۱۷) آپ کی نگاہ نہ تو بہکی اور نہ حد سے بڑھی(از ترجمہ مولانا محمود الحسن رحمہ اللہ) یعنی جو کچھ دیکھا اس میں نظر نے کوئی خطا یا غلطی نہیں کی۔ میرے نبی کی آنکھ میں تونور ِوحی کا سرمہ لگا ہوا ہے، اس لئے آپ کی آنکھ غلط نہیں دیکھ سکتی، وحی کے نور سے دیکھتی ہے۔ پس جس ذات ِگرامیﷺ کی آنکھوں میں نور ِوحی کا سرمہ تھا، انہوں نے دنیا کو دار الغرور فرمایا ہے کہ یہ دھوکہ کا گھر ہے۔ ساری دنیا اور اس کے دانشور دنیا کی جو بھی تعریف کریں،وہ غلط ہوگی کیونکہ ان کی آنکھیں نور ِوحی سے محروم ہیں، اس لئے وہ غلط دیکھتی ہیں، اور جب غلط دیکھتی ہیں تو غلط رائے قائم کرتی ہیں، پس جو نبی ٔکریمﷺ نے فرمادیا وہی حق ہے۔

01:08:39) اللہ کے عُشّاق رمضان کا انتظار نہیں کرتے شبِ قدر یا شبِ برات کا انتظار نہیں کرتے اُن کا ہر لمحہ اللہ کی یاد میں گزرتا ہے۔۔۔

01:09:32) اللہ تعالیٰ جس کی ہدایت کا فیصلہ فرماتے ہیں اُن کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتے ہیں۔۔۔

01:14:12) دنیا کا سارا عیش ایک دھوکہ ہے ساری دنیا اور اس کے دانشور دنیا کی جو بھی تعریف کریں،وہ غلط ہوگی کیونکہ ان کی آنکھیں نور ِوحی سے محروم ہیں، اس لئے وہ غلط دیکھتی ہیں، اور جب غلط دیکھتی ہیں تو غلط رائے قائم کرتی ہیں، پس جو نبی ٔکریمﷺ نے فرمادیا وہی حق ہے۔

01:14:42) قلوبِ اولیاء پر اللہ تعالیٰ کی نظر کرم ملا علی قاری کاقول کہ اﷲ اپنے اولیاء کے دل کو ہر وقت پیار سے دیکھتے ہیں: (( اِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلٰی قُلُوْبِ اَوْلِیَاۗءِہٖ بِاللُّطْفِ وَ الْکَرَمِ)) (مرقاۃ المفاتیح، باب اسماء اللّٰہ تعالٰی، ج:۵،ص:۱۹۱) اﷲ تعالیٰ اپنے دوستوں کے دل کو مہربانی سے دیکھتے ہیں تو جن کی محبت کا نقطہ بھی ان کے دل میں ہوتا ہے، جس سے شیخ محبت کرتا ہے اس کے نقطہ پر بھی اﷲ کی نظر پڑجاتی ہے۔ تو اﷲ والوں کے دل میں اپنی محبت پیدا کرنا گویا کہ اﷲ تعالیٰ ہی کی محبت کے دائرے میں اپنے کو کرلینا ہے۔ اب یہاں میں نے اِن کا ستعمال کیسا کیا؟ انگلش تو میں نہیں جانتا مگر اِن تو کردیا، اپنے مضمون میں اِن کو استعمال کر لیا تو اﷲ والوں سے محبت کرکے اُن کے قلب میں اِن ہوجاؤ۔

01:16:11) جنت پر اہل اللہ کی فضیلت کی دلیل تو میں عرض کررہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا میں بھی اپنے عاشقین، اللہ والوں اور مولویوں یعنی علمائے ربانین کی ملاقات کو ضروری کردیا لیکن فرمایا جنت میں بھی تم ان سے مستغنی نہیں ہوسکتے۔ فرماتے ہیں: {فَادْخُلِیْ فِیْ عِبَادْی وَادْخُلِیْ جَنَّتِیْ} دیکھو جنت کی طرف دیکھنا بھی نہیں، پہلے میرے خاص بندوں سے ملو پھر جنت میں جائو اور وہاں کی نعمتوں میں مشغول ہو کیونکہ میرے خاص بندوں کا درجہ جنت سے اعلیٰ ہے۔ اس کی ایک دلیل تو میرے شیخ حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ دیتے تھے کہ اہل اللہ جنت کے مکین ہیں، جنت اللہ والوں مکان ہے اور مکین افضل ہوتا ہے مکان سے۔ کیا منطقی دلیل دی میرے شیخ نے! اور دوسری دلیل ان کے غلام اختر کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمائی کہ جنت حامل نعمت ہے اور اہل اللہ حامل منعم ہیں اور حامل منعم کا درجہ نعمت سے زیادہ ہے۔ کہاں نعمت اور کہاں نعمت کا دینے والا! لہٰذا جن کے دل میں نعمت دینے والا متجلی ہے ان کا درجہ جنت سے زیادہ نہ ہوگا؟ معلوم ہوا کہ اہل اللہ جنت سے افضل ہیں کیونکہ ان کو جنت دینے والے سے نسبت ہے، خالق جنت سے رابطہ ہے اور جنت نعمت تو ہے لیکن نعمت منعم سے نہیں بڑھ سکتی۔ مخلوق خالق کے مقابلہ میں نہیں آسکتی اسی لیے جنت میں مشغول ہونے سے پہلے فادخلی فی عبادی کا حکم ہوا کہ پہلے میرے خاص بندوں سے ملو، بعد میں جنت کے مزے اُڑائو۔

01:22:43) احسانی کیفیت کیا ہے؟۔۔۔

01:27:32) ایئر ہوسٹس کے ساتھ کس طرح معاملہ کرنا چاہیے؟۔۔۔

01:29:31) دُعائیہ پرچیاں۔۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries