بعد یکم جون   ۲۵ء:حضرت والا ؒ کے مجاہدات   !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجدِ اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:29) تصوف کے بارے میں ملفوظات بیان ہوئے۔۔

04:47) سب سے پہلے ایمان اور اسلام ہے۔۔

17:24) ان راتوں کی قدر کرلیں ذوالحجہ کی راتیں بہت مبارک راتیں ہیں ان کو ضائع مت کریں۔۔

34:10) جان کر من جملۂ خاصان ِمےخانہ مجھے ۲۸؍محرم الحرام۱۴۱۲؁ھ مطابق ۱۰؍اگست۱۹۹۱ ء؁ بروز ہفتہ بعد فجر، خانقاہ امدادیہ اشرفیہ،گلشن ِاقبال،کراچی (بعد فجر زبردست مجلس ہوئی،تقریباً چالیس منٹ حضرت والا رحمہ اللہ کی زبان ِمبارک سے مضامین کا بادل مینہ برساتا رہا،ان مضامین میں(۱)حق تعالیٰ کی شدید محبت،(۲)صحبت ِاہل اللہ،(۳)حضرت والا نے جو بزرگوں کی صحبت اُٹھائی، (۴)حضرت پھولپوری رحمہ اللہ کی حیات،(۵)اللہ تعالیٰ کی شان ِجذب پر بیان فرمایا۔ آخر میں بڑے درد کے ساتھ فرمایا کہ) میری ان باتوں کی قدر کرلو،یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں،یہ چشم دید واقعات ہیں، جن کے لئے مجھے خون کے دریا عبور کرنے پڑے۔

آج لوگ میرا آرام اور ٹھاٹھ دیکھتے ہیںتو اپنے دل میں حسد اور بدگمانی کرتے ہیں، کاش! یہ لوگ میرا وہ زمانہ دیکھتے جب مجھے شیخ کی محبت کی سزا دی جا رہی تھی کہ میں شیخ کو چھوڑ کر بھاگ جائوں۔ اس زمانہ کی حالت پر میرے دو شعروں سے اندازہ لگا لیجیے، یہ معمولی شعر نہیں ہیں،میں نے اپنے مجاہدات کو اِن میں بیان کیا ہے

34:54) جفائیں سہہ کر دعائیں دینا یہی تھا مجبور دل کا شیوہ زمانہ گذرا اسی طرح سے تمہارے در پر دلِ حزیں کا نہیں خبر تھی مجھے یہ اخترؔ کہ رنگ لائے گا خوں ہمارا جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا یہی رونا ہے کہ زندگی میں قدر نہیں کی جاتی،اور انتقال کے بعد بہت القابات تین سطر میں نوّر اللہ مرقدہ و روّح اللہ رُوْحَہ لگائے جاتے ہیں لیکن ۔۔۔۔جان کر من جملۂ خاصانِ مےخانہ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔مدتوں رویا کریں گے جام و پیمانہ مجھے

36:40) اس کے بعد حضرت والا رحمہ اللہ مع احباب کے ٹہلنے کے لئے تشریف لے گئے۔ حضرت والا کے جاتے ہی مولانا مظہر صاحب دامت برکاتہم نے وہ پرچہ جس پر احقر نے مجلس کے ارشادات نوٹ کئے تھے،احقر سے لیا اور یہی شعر بار بار پڑھنے لگے، پھر اپنی ڈائری میں بھی یہ شعر نوٹ کیا اور فرمایا’’ والد صاحب کا یہ شعر پڑھنا یونہی بے سبب نہیں ہے۔‘‘ اس بات پر احقر رونے لگا اور اسی کیفیت میں یہ خیال آیا کہ حضرت والا کے بغیر زندگی زندگی نہیں تیرے بغیر زندگی موت ہے زندگی نہیں کوئی مزہ مزہ نہیں کوئی خوشی خوشی نہیں

37:25) اسی غم کی کیفیت میں ایک مصرع احقر کا موزوں ہوگیا اتنا تڑپائو گے تو دنیا ہی سے گذر جائیں گے ہم جب حضرت والا ٹہل کر واپس تشریف لائے،احقر حضرت والا کے سرِ ِمبارک میں تیل مالش کر رہا تھا تو حضرت مولانا مظہر صاحب مد ظلہ کا عمل اور اپنا رونا اور جو مصرع ہوا، وہ حضرت والا کو سنایا تو حضرت سُن کر مسکرا دیئے،اور قاضی خدا بخش صاحب سے فرمایا’’یہ لڑکا بھی محبت کے رموز سے واقف ہے،اس راستے کو جانتا ہے۔‘‘

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries