بعدعشاء ۱۹     جولائی    ۲۵ء:عشق وہ مطلوب ہے جو خشیت کے ساتھ ہو !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

مقام:مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر کراچی

بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم

04:22) منصب کانم ز رویت محجب است وہ منصب،وہ عہدہ،وہ عزتیں،وہ کاروبار،وہ دنیاوی ٹھاٹھ باٹ جو ہمیں آپ کی یاد سے محروم کردیں،وہ کیا ہیں؎ عین معزولیست نامش منصب است وہ معزولی ہے،وہ ہماری عزت نہیں ہے،وہ منصب جو مجھے آپ کے چہرۂ مبارک کو دیکھنے سے معزول کردے،جو حجاب بن جائے،گویا آپ نے ہمیں معزول کردیا، وہ عہدہ نہیں ہے،نام اس کا منصب ہے۔

نام کیا ہے ڈپٹی کمشنر ہوگئے،بادشاہ ہوگئے، اب رات دن فکر لگی ہوئی ہے،یا دوچار فیکٹری قائم ہوگئیں،اب نیند نہیں آرہی ہےیا حساب دیکھ رہے ہیں،آج یونین نے بغاوت کر دی ہے،آج کارخانہ بند کرادیا،اتنا زیادہ انکم ٹیکس آگیا،رات بھر نیند نہیں آرہی ہے،تڑپ رہا ہے،ارے بھئی!ڈاکٹر کو فون کرنا،ذرا کورامن کا انجکشن لگوادو یا آکسیجن چڑھوادو،میرا تو دل ڈوب رہا ہے، پچاس لاکھ کا انکم ٹیکس لگ کر آگیا،ذرا انکم ٹیکس آفیسرسے بات کرو کہ میں ملنے کے لئے آرہا ہوں۔اب بھاگے جا رہے ہیں کہ میں نے سنا ہے آپ کی بیٹی کی شادی ہے،یہ لیجیے ڈیڑھ لاکھ کا زیور، اور اس کے سامنے ہاتھ جوڑ رہے ہیں۔

اللہ والوں کے سامنے یہی شخص اکڑ کے بیٹھتا ہےاور دنیا والوں کے سامنے جن کی پتلونوںمیں ڈیڑھ ڈیڑھ پائو پیشاب جذب ہے،بے نمازی ہیں،ان کے سامنے یہ فیکٹری مالک صاحب ہاتھ جوڑے کھڑے ہیں کہ مہربانی کر کے پچاس لاکھ کا انکم ٹیکس ہے،اسے کم کر کے پانچ لاکھ کر دیجئےاور پانچ لاکھ آپ لے لیجیے۔

07:48) مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں؎ اے تواضع بردہ پیش ابلہاں اے تکبر کردہ تو پیش شہاں بے وقوفوں کے سامنے تم تواضع کرتے ہواور اللہ والوں کے سامنے تم اکڑ کے بیٹھتے ہو، شرم نہیں آتی۔بے وقوفوں کے سامنے،دنیا داروں کے سامنے،ناپاک پتلونوں کے سامنے تم ہاتھ جوڑے کھڑے ہو،محض ان کی طاقت اور اختیارات کی وجہ سے اور مولویوں کو کہتے ہو یہ ملّا چندہ مانگنے آیا ہوگا۔اس میں ہماری،مولوی برادری کابھی قصور ہے،ہم نے ان سے چندہ مانگ مانگ کر ان کا دماغ خراب کیا ہے۔اللہ تعالیٰ کا کروڑ کروڑ شکر ہے کہ جب سے یہ خانقاہ بنی ہے،کسی کے دروازے پر جانا تو درکنار، کسی کے دروازے پر آیا ہوا پیسہ بھی میں نے نہیں لیا۔

08:25) حضرت والا رحمہ اللہ کے استغناء کے تین واقعات اجی۔۔۔۔ صاحب،پنجابی سوداگران کا جنرل سیکریٹری،ابھی حیات ہیں، تعلیم القرآن ٹرسٹ والے،بہت بڑا بزنس مین،اس نے مجھ سے ریاض مسجد ہل پارک میں جمعہ پڑھوایا،پہلے میری تقریر کروائی،پھر اپنے گھر لے گیا کہ چلئے، کھانا نہیں کھاتے چائے ہی پی لیجیے۔پھر میری اس مسجد کے لئے پانچ ہزار روپیہ پیش کیا۔ میں نے کہا میں ان بزرگوں کا غلام ہوںجو دروازوں پر پیسہ نہیں لیا کرتے تھے، اگر آپ کو دینا ہے تو میرے ادارے میں کسی سے بھجوادیجئے،یہاں نہیں لوں گا۔ ہم دروازے پر کسی کے نہیں لیتے،ہمارے دروازے پر آپ بھیج دیجئے۔

09:07) میں اللہ تعالیٰ کا کروڑ کروڑ شکر ادا کرتا ہوں،نواب قیصر صاحب نے مجھے فون کیا کہ دبئی کا شیخ،شاہزادہ میرا پڑوسی ہے،میں نے اس سے آپ کی خانقاہ کے لئے سات لاکھ روپے کی منظوری لے لی ہے۔نواب قیصر صاحب ابھی زندہ ہیں،پوچھ لو ان سے،اس روایت میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

10:08) میں اُس وقت بہت بے کس تھا، اتنا بے کس تھا کہ میری کوئی مالداروں سے جان پہچان نہیں تھی،دوچار غریب لوگ میرے پاس آتے تھے،کوئی نہیں جانتا تھا مجھے۔میں نے نواب قیصر صاحب کو فون پر جواب دیا کہ وہ سات لاکھ روپے،تعمیرِ خانقاہ کے لئے کیا وہ آپ کو دے دیں گے؟ آپ لے کر مجھے پہنچا دیجئے۔کہا ایسے تو نہیں دیں گے،آپ کو آفس آنا پڑے گا، دستخط کرنا ہوگا،پھر چیک دے گا۔میں نے کہا’’میں بادشاہوں کے دروازوں پر جاکر پیسہ لینے والا فقیر نہیں ہوں،خدا نہ کرے کہ وہ دن آئے کیونکہ کوئی اللہ والا فقیر، اللہ والوں کا غلام اگر کسی بادشاہ کے دروازے پر جا کر خانقاہ کے لئے پیسہ لائے تو اس خانقاہ کی روح نہیں رہے گی،بس اسٹرکچرہوگا،ڈھانچہ ہوگا،اس میں روحانیت نہیں ہوگی،اور قیامت تک کے لئے میری تاریخ سیاہ ہو جائے گی۔لوگ یہی کہیں گے کہ اس خانقاہ کا بانی بادشاہ کے دروازے سے پیسہ لایا تھا۔‘‘

13:44) سات لاکھ یہ عرب بادشاہ کی رقم کا انکار کیا اور ایک خاتون نے پندرہ لاکھ دینے کا وعدہ کیا لیکن شرط لگائی کہ اس کے شوہر کے باپ یعنی اس خاتون کے سسر کا نام لکھ کر لگایا جائے کہ تعمیر کردہ فلاں۔میرا ایک مرید،فلپائن سے ایم بی اے کیا ہوا، وہ بیچ میں رابطہ کار تھا،میں نے اپنے مرید کے ذریعہ کہلوایا کہ اگر باپ دادائوں کا نام لکھنا ہوتا تو آج سارے ادارے میں تعمیر کردہ فلاں، تعمیر کردہ فلاں لکھا ہوتامگر حکیم الامتh کا نام لکھوادیا ہے جو میرا پردادا ہے،اب حکیم الامت کے بعد میں کسی کا نام نہیں لکھوں گا۔

اگر دینا ہے تو بغیر کسی شرط کے دیں،پھر اس نے ایک پیسہ نہیں دیا۔نام و نمود کی عشق و محبت دیکھئے کہ پھر ایک پیسہ نہیں دیا،ورنہ آدمی سوچتا ہے کہ شرما حضوری میں پندرہ لاکھ نہیں چلو ایک لاکھ ہی دے دیں لیکن کیا میری پانچ منزلیں نہیں بنیں؟کیا اللہ نے میری آہ نہیںسنی؟اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بغیر سوال میرے پاس ایک ملک سے فون آیا کہ میرے دل میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تقاضا آرہا ہے کہ میں کچھ آپ کے ادارے میں خدمت کروں۔

17:39) حضرت والا رحمہ اللہ کا شفقت بھرا انداز ِتربیت و اصلاح ۲۸؍ربیع الاول۱۴۱۲؁ھ مطابق ۸؍اکتوبر۱۹۹۱ ء؁ بروز منگل بعد ظہر ۳ بجے دوپہر،کمرۂ خاص در خانقاہ،گلشن ِاقبال،کراچی (احقر تیل مالش کر کے کمرے سے رخصت ہو رہا تھا تو فرمایا کہ اِدھر بیٹھو اور ایک زبردست تسلی کی نصیحت سن کر جائو۔

17:56) ارشاد فرمایا کہ دنیاوی کوڑھ کا جیسے علاج نہیں ہےتو اس کے ساتھ گذارہ کرتے ہیں کہ نہیںیا خود کشی جائز ہوجاتی ہے؟اسی طرح کبھی باطنی کوڑھ بھی ہوجاتا ہے، باطنی بیماری اگر اچھی نہ ہورہی ہو تو ہمت نہیں ہارنی چاہیے،کبھی شیطان مایوسی ڈالتا ہے کہ شیخ کے پاس رہتے ہوئے اتنے دن ہوگئے،ابھی تک دل میں گندے خیالات اور گناہوں کے تقاضے آ رہے ہیں۔جس قدر کوشش کے ہم مکلف ہیںاتنے ہی کی ہماری جوابدہی ہے،ہم اتنے ہی کے مکلف ہیں کہ شفا ہو یا نہ ہو، ہم ہمت کر کے گناہوں سے بچیں،پھر بھی اگر مجاہدات شدیدہ ہوں تو اللہ سے گڑگڑائو، سجدہ گاہ کو رورو کے تر کردو۔ہرگز مایوس نہیں ہونا چاہیے،بس ہمت کئے جائو،اللہ ہی سے روئو، اور کوئی چوکھٹ بھی نہیں ہے۔

22:01) ۱۔عشق وہ مطلوب ہے جو خشیت کے ساتھ ہو ارشاد فرمایا کہ دارالعلوم کراچی میں حضرت پھولپوری رحمہ اللہ نے تقریر فرمائی تھی،میں بھی موجود تھا،یہ باتیں آپ کتابوں میں نہیں پائیں گے۔یہ میرا علم کتابی نہیں،سینہ بہ سینہ ہے۔اس میں فرمایا تھا کہ نابینا صحابی حضرت عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ دوڑتے ہوئے آرہے تھے: ﴿وَاَمَّا مَن (سورۃ عبس:آیات ۸ تا ۹) سعی معنی دوڑنا،تیز چلنا۔دوڑتے ہوئے آرہے تھے اور ڈر بھی رہے تھے۔ دوڑ کے آنا یہ عشق تھا،محبت کی شدت تھی،اور وَهُوَ يَخْشٰى ،خشیت ساتھ ساتھ تھی۔ وَهُوَ يَخْشٰى حال ہے اور حال ذوالحال کے لئے بمنزلہ قید کے ہوتا ہے،کیا مطلب؟ عشق کو اللہ کی خشیت کے دائرے میں رکھا جائےتب استقامت رہتی ہے،بدعت نہیں پھیلتی۔بدعت وہیں پھیلی جہاں عشق غالب ہوگیا اور حدود ِشریعت کو پھلانگ گیا۔ بدعت عشق ہی سے پھیلی ہے،جب محبت خشیت کی حدود کو توڑتی ہے تو بدعت ہوجاتی ہے۔

22:30) ۲۔ اللہ کا دیوانہ بن جاؤ تمہارا غم دوسرے اٹھائیں گے حکیم الامت تھانوی نور اللہ مرقدہ ریل میں سہارنپور سے ہندوستان کے علاقے قنوج جارہے تھے،اس وعظ کا نام اوج ِقنوج ہے،ہمارے قرار صاحب بھی قنوج کے رہنے والے ہیں،وہاں بڑی پیرانی صاحبہ کے کان کا آپریشن تھا۔تو اعلان فرمایا کہ کون کون میرے ساتھ چلے گا؟تو حضرت پھولپوری رحمہ اللہ،حضرت خواجہ صاحب رحمہ اللہ اور بہت سے علماء اور خلفاء ساتھ ہوگئے۔

24:06) حضرت شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ کے سر پر تیل کی مالش کررہے تھے۔ جب ریل چلی تو ایک اسٹیشن پر ہرے چنے، چنے کے ہولے بِک رہے تھے،کھیت کا تازہ چنا بڑا مزیدار ہوتا ہے۔ جو چنا سبز ہوتا ہے کھیت سے نکلا ہوا، خشک نہ ہو اس کو ہولا کہا جاتا تھا تو وہ سب چھیل چھیل کے کھانے لگے۔

25:01) حکیم الامت رحمہ اللہ نے فرمایا کہ تم لوگ چھیل چھیل کر مولانا عبدالغنی کے منہ میں ڈالو کیونکہ ان کے دونوں ہاتھ چھیلنے سے معذور ہیں،مولانا عبد الغنی صاحب اس وقت میرے سرپرست ہیں۔ دیکھو! ایک شیخ اپنے مرید کے لئے سرپرست کہہ رہا ہے، یہ کیا ہے؟ یہ چھوٹوں کا دل بڑھانا ہے، حوصلہ افزائی ہے، ذرّہ افزائی ہے، ذرّہ نوازی ہے، شیخ کی نوازشات بھی ہوتی ہیں۔

25:18) حضرت نے براہ ِراست یہ بات مجھے سنائی، بیچ میں کوئی اور راوی نہیں ہے۔ تب سب نے چھیل چھیل کر حضرت کے منہ میں ڈالا،دوسرے لوگوں کی میرے مرشد کی یہ خدمت اور چھیل چھیل کر منہ میں ڈالنا، میرے شیخ چھیلنے سے بھی بچ گئے،چھلا چھلایا مال ملا،تو حکیم الامت تھانویh نے اس پر ایک مصرع فرمایا وہ آپ سب کے لئے باعثِ نصیحت ہے؎ دیوانہ باش تا غمِ تو دیگراں خورند اگر تم اللہ کے دیوانے ہوجائو تو تمہارا غم دوسرے اُٹھائیں گے اور تمہیں کہنا بھی نہیں پڑے گا۔ میرے شیخ نے نہیں فرمایا کہ تم لوگ چھیل چھیل کے مجھے کھلائو،ان کے بڑے نے کہا، تو ہمارا بڑا اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق کے دل میں ڈالے گا

25:36) وہ تمہاری حاجتوں کو پورا کرکے اور تمہاری خدمت کرکے شکریہ بھی ادا کریں گے ۔جو گدڑی پھنکواتا ہے تو سمجھ لو کہ نئی دے گا۔ایک مجذوب تھا،اس کا کمبل پرانا تھا،آسمان سے آواز آئی اے مجذوب!تیرا پرانا کمبل،پھٹا ہوا مجھے اچھا نہیں لگ رہا ہے،اسے پھینک دے،اس نے اتار کر پھینک دیا۔اب سردی کا زمانہ، ٹھنڈی ہوا بھی لگ رہی ہے۔تھوڑی دیر میں دیکھا کہ ایک آدمی نیا کمبل لے کر آرہا ہے،آکر کہاکہ حضرت!یہ کمبل ہدیہ قبول فرمائیں گے؟تو اس مجذوب نے دل میں کہا کہ پرانا تو پھنکوادیا،اب نیا بھی نہ لوں گا تو کیا سردی میں مروں؟

27:53) میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ کا بھی ایسا واقعہ لاہور میں ہوا۔ وہاں کے میزبان سخت سردی کی رات میں حضرت کو کمبل دینا بھول گئے۔میری والدہ جو حضرت کے نکاح میں تھیں،اپنی پہلی زوجہ کے انتقال کے بعد حضرت نے میری والدہ سے میری درخواست پر نکاح فرمایا تھا،انہوں نے اپنا کمبل پیش کیا کہ آپ یہ لے لیں۔حضرت نے منع فرما دیا کہ نہیں!تم اپنا کمبل رکھو،میزبان بھول گیا، انسان ہے بھول جاتا ہے،میں ایسے ہی سردی میں رات گذاروں گا،اللہ میاں کو ہماری مَیا(محبت)لگے گی تو خود ہی بھیج دے گا،اس میں کوئی اللہ کا راز ہوگا۔ چنانچہ کڑاکے کی سردی میںرات بھرکروٹ لیتے رہے۔ نو بجے صبح لاہور میں غلام سرور صاحب کے گھر پرمجلس ہوتی تھی، ساڑھے نو بجے فیصل آباد سےایک صاحب نیا کمبل لے کر آئےکہ حضرت!یہ کمبل میں آپ کےلئےہدیہ لایا ہوں۔ بتائیے! کہاں لاہور اور کہاں فیصل آباد!حضرت نے سر آنکھوں پر رکھااور رونے لگے، والدہ صاحبہ سےجا کر فرمایا کہ دیکھو !اللہ کو مَیا لگی یا نہیں؟ اللہ اللہ!مولیٰ کے ان عاشقوں کا ناز تودیکھو

28:46) اس لئے کبھی کوئی نقصان وغیرہ ہوجائے تو گھبرائو نہیں،ان شاء اللہ!کوئی زبردست نعمت ملے گی۔جب جب ہم پر کوئی مصیبت آئی تو ہمارے بیٹے مولانا مظہر میاں نے کہا کہ ابّا گھبرائیے نہیں،ان شاء اللہ! کوئی عظیم نعمت ملنے والی ہے، اور واقعی بات ہے،ایسا ہی ہوا۔جب کوئی پریشانی کا جھٹکا لگا،مسجد بنانے میں ایک نے اختلاف کیا،سخت مخالفت کی،فوراً کوئی عظیم نعمت کوئی نئی عمارت اللہ نے بنوا دی،اللہ کی رحمت کے خزانے کھل گئے۔اگر آج یہ غم نہ ہوتا تو ہماری استقامت کا زاویہ قائمہ نوے ڈگری سے اِدھر اُدھر ہوجاتا۔حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اگر مخلوق ستائے تو گھبرائو مت،یہ کُونین،دولت ِکَونین کا سبب ہوتی ہے،عجب و کبر و جاہ کا ملیریا اس کو نہیں آئے گا۔

31:07) ۳۔حضرت پھولپوری رحمہ اللہ کا اتباع ِشیخ تودوران ِسفر حضرت شاہ پھولپوری رحمہ اللہ حضرت حکیم الامت رحمہ اللہ کے سر میں تیل لگا رہے تھے۔حضرت کھڑے ہوکر دو دو گھنٹے تیل لگاتے تھے،بیٹھتے نہیں تھے،کیا پہلوان تھے،سب پہلوانی اللہ پر اور اللہ والوں پر فدا کردی۔اب چونکہ میرے شیخ تمباکو کھاتے تھے،فرماتے تھے کہ میں چالیس سال تک پان تمباکو کھاتا رہا ہوں، اور تم لوگ تو تمباکو تھوڑی سی کھاتے ہو ایسے چٹکی سے لے کر، اور میں چار انگلیوں سے لے کر جس طرح سے کھانا کھایا جاتا ہے اس طریقہ سے ایک تولہ کے قریب تمباکو کھاتا تھا، اس کو کھانا نہیں کہتے تھے، حضرت فرماتے تھے کہ جتنا میں کھاتا تھا اس کی کھانے سے تعبیر نہیں ہوسکتی،اس کا نام بھکوسنا تھا یعنی میں تمباکو کو بھکوستا تھا، یہ یوپی والے اس لفظ کی لذت کو سمجھیں گے۔تو سر دباتے ہوئے جب منہ قریب ہوا تو حضرت حکیم الامت کو کچھ بُو محسوس ہوئی تو ایک جملہ فرمایا کہ تمباکو دماغ کو نقصان کرتی ہے۔

32:02) حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمہ اللہ نے مجھ سے فرمایا یہ جملہ خبریہ میرے لئے انشائیہ سے بھی بڑھ کر تھا یعنی یہ اشارہ حکم سے بھی بڑھ کر تھا، میں نے تمباکو کھانا چھوڑ دیا، جو اتنی اتنی تمباکو بھکوستے تھے،حضرت نے ہمیشہ کے لئے چھوڑدیا۔ پھر چالیس پچاس سال مزید زندہ رہے،نزلہ ہوا،گلا خراب ہوا،بہت تکلیف بھی ہوئی، قبض کی شکایت ہوئی لیکن فرمایا بلا سے جان جائے مگر شیخ کی بات پر عمل کرنا ہے۔یہ ہے اتباع ِشیخ۔جنہوں نے جتنا زیادہ اللہ والوں کی عظمتیں کیں اتنا ہی اللہ نے ان کو بلند مقام پر پہنچایا،اتنا ہی وہ اونچے اُڑے،یہ راستہ ایسا ہی ہے۔

39:30) وَ ھُوَ یَخْشٰی پر حضرت پھولپوری رحمہ اللہ کی عاشقانہ تقریر تومیرے شیخ حضرت پھولپوری رحمہ اللہنے اس آیت کے متعلق جو بات ارشاد فرمائی، اس کے مزہ میں مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ ( مفتی اعظم پاکستان)کو وجد آگیا اورفرمایا کہ حضرت!ایک آیت پر میں بیان کروں اور اسی آیت پر آپ بیان کریں تو زمین وآسمان کا فرق ہو جاتاہے، اور فرمایاآپ قلیل الکمیت اور کثیر الکیفیت ہیں یعنی آپ کا مضمون مختصر بھی ہوتا ہے لیکن کیفیت اوراسٹیم اس میں تیز ہوتی ہے اور ہمارا مضمون کثیر الکمیت تو ہوتاہے لیکن قلیل الکیفیت ہوتا ہے جیسے ریل میںوزن بہت ہےجبکہ ہوائی جہاز میں وزن اس سے کم ہوتا ہے لیکن جتنا جلد جہاز اُڑ کر پہنچتا ہے ریل نہیں پہنچتی کیونکہ دونوں کی اسٹیم میں فرق ہے۔ اسی طرح ایک ہی شیخ کے بہت سارے مرید ہوتے ہیں لیکن بعض مرید اپنی کیفیت ِروحانی کی وجہ سے دوسروں سے آگے بڑھ جاتے ہیں۔سیدنا حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی جو اسٹیم تھی وہ سب سے فائق تر تھی لہٰذا وہ پرواز میں سب سے آگے بڑھ گئے۔

41:46) حضرت شاہ عبد الغنی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے دو باتیں ارشاد فرمائی ہیں، ایک تو یَسْعٰی ۔عبد اللہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابینا صحابی دوڑ کر آئے،اور دوسرے وَ ھُوَ یَخْشٰی اور وہ ڈر بھی رہے تھے۔تو دوڑ کر چلنا دلیل ِعشق ہے،جب انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہے اوراس سے ملنا چاہتا ہے تو رفتار خود بخود تیز ہو جاتی ہے اور اگر محبت نہ ہو تو آہستہ آہستہ چلتا ہے اور راستہ دوبھر معلوم ہوتاہے۔

صحابی عشق ِرسول میں دوڑتے ہوئے تو آئے لیکن وہ ڈربھی رہے تھے، اِنَّ الْحَالَ یَکُوْنُ قَیْدًا لِّذِی الْحَالِ ،حال ذوالحال کے لئے قید ہوتا ہے،علماء حضرات اس قاعدہ کو سمجھتے ہیں۔کیامطلب؟ حضرت عبداللہ ابن ام مکتوم عشق میں دوڑے ہوئے تو آئے لیکن ان کا عشق خشیت کے دائرے میں تھا۔اگر اللہ کا عشق اللہ کے خوف کے دائرے سے نکل جائے تو وہی بدعت بن جاتا ہے، بدعت وہ عشق ہے جو حدودِ خشیت سے تجاوز کر جائے، پھر وہ قانون کا پابند نہیں رہتا ،جیسے چاہو عشق کرو،اور صحیح سنت و شریعت کے راستے کو کہتا ہے کہ یہ سب مولویوں کی باتیں ہیں۔

42:47) تو میرے حضرت نے یہ فرمایا کہ یَسْعٰی سے عشق ثابت ہوا اوروَھُوَ یَخْشٰی سے اس عشق کو پابند ِشریعت اور حدود ِشریعت کا قیدی بنا کر اللہ نے بتا دیا کہ جوہم سےمحبت کرے گا اور حدودِ شریعت کو توڑے گا یا حدودِ سنت کے دائرے سے خروج کرے گا اس کا عشق غیر مقبو ل ہوگا، مردود ہو گا۔توحضرت مفتی اعظم مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ کو اس تفسیرپر حال آگیاکہ یَسْعٰی سے عشق اور وَ ھُوَ یَخْشٰی سے خشیت وخوف ثابت ہوتا ہے یعنی عشق ایسا ہو جو خوف کے دائر ے میں ہو،ایسا عشق نہ ہو کہ بےخوف ہوجائے۔

اس لئے حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ شیخ کی محبت کو عظمت کے ساتھ جمع کرنا چاہیے، ایسی محبت نہ ہو جیسی بیوی سے یا اماں سے ہوتی ہے بلکہ ابّا والی محبت ہو،اماں کو تو بیٹا اماں چمّاں بھی کہہ دیتا ہےکہ اماں چمّاں کھانا دو،لڑبھی لیتا ہےمگر ابّا کو کبھی ابّا چبّا نہیں کہتا کہ کہیں ابّا چبا نہ ڈالے۔تو شیخ کے ڈنڈے سے بھی ذرا ہشیار رہنا چاہیے، محض محبت ہوگی تو نالائقی اور گستاخی ہو نے کا اندیشہ ہے۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries