عشاءمجلس۱۲ / ستمبر      ۲۵ء:اللہ کا راستہ اور اتباع رہبر  !

مجلس محفوظ کیجئے

اصلاحی مجلس کی جھلکیاں

*مقام:مسجد اختر نزد سندھ بلوچ سوسائٹی گلستانِ جوہر کراچی*

*بیان:عارف باللہ حضرتِ اقدس حضرت شاہ فیروز عبداللہ میمن صاحب دامت برکاتہم*

08:02) بیان کا آغاز ہوا۔۔۔دین کے معاملے میں جو عقل پر چلا وہ برباد ہوا۔۔۔!!

08:03) جو اللہ کو ناراض کرے گا اُسے تلخ زندگی دی جائے گی یہ اللہ تعالیٰ کا اعلان ہے۔۔۔!!

11:10) گمراہ کن فرقےاور ان کے مختلف قسم کے وار۔۔۔!!

24:51) مجالس ِعلم و حکمت سے حضرت والا رحمہ اللہ کا مضمون پڑھ کر سنایا: اللہ کا راستہ قیل و قال سے نہیں اتباع ِرہبر سے طے ہوتا ہے: (ایک صاحب جو قیل و قال، فلسفہ و منطق کی بحث و مباحثہ کے عادی ہیں، ان سے فرمایا کہ) آپ نے اگر مٹھائیوں کی معلومات کر بھی لی لیکن مٹھائی کا مزہ جب آئے گا جب معلومات کو ماکولات بنالو گے(یعنی مٹھائی کھا لوگے)۔

28:20) تقویٰ کس چیز کا نام ہے؟نفس کی چالاکیاں اور اصلاح کی اہمیت۔۔۔!!

34:41) اللہ تعالیٰ کی مختلف نشانیاں۔۔۔ذرّہ ذرّہ اللہ تعالیٰ کی نشانی ہے۔۔۔!!

43:33) ۔۔۔معلوم ہوا کہ معلومات مقصود نہیں معمولات مقصود ہیں یعنی عمل مقصود ہے۔ اور یہ عقل کے بھی خلاف ہے کہ مٹھائی تو سامنے رکھی ہے لیکن آپ اس کے اجزاء معلوم کر رہے ہوں کہ اس مٹھائی کو میں جب کھائوں گا جب اس کے اجزاء کے بارے میں معلومات حاصل کر لوں۔ارے! مٹھائی کھانے میں اتنی دیر بھی کیوں کی؟مٹھائی زبان پر رکھ کر دیکھتے تو فوراً مزہ آتا اور اس کے اجزاء بھی خود بخود معلوم ہوجاتے۔ معلومات میں وہ مزہ کہاں جو مٹھائی کے کھانے میں ہے۔ اسی طرح اگر اللہ کو حاصل کرنا چاہتے ہو تو قیل و قال چھوڑ دو، عمل شروع کردو، ذکر میں لگ جاؤ۔۔۔

45:49) ۔۔۔کسی اللہ والے کی صحبت اختیار کرو اور اس کی تجویزات پر عمل کرکے دیکھو، پھر یہ سارے وساوس اور قیل و قال خود ختم ہوجائیں گے۔ ایسی لذتِ قرب حاصل ہوگی کہ پھر فلسفہ ومنطق کا خیال بھی نہ آئے گا،پھر اختلافی مسائل بھی نظر نہ آئیں گے، پھر یہ وسوسہ بھی نہ آئے گا کہ نہ معلوم یہ راستہ اللہ تک پہنچتا ہے کہ نہیں؟ کیونکہ اس راستے کی لذت خود دلیل ہو گی کہ یہی اللہ کا راستہ ہے۔

49:13) ۔۔۔مثال کے طور پر تم ایک سر سبز و شاداب باغ کی طرف بڑھ رہے ہو تو اگرچہ ابھی باغ سے دور ہو لیکن کیونکہ سمت صحیح ہے اس لئے اُدھر سے جو ہوائیں آئیں گی، وہ خوشبوئیں ساتھ لائیں گی،اور جتنا جتنا راستہ طے ہوتا جائے گا اور باغ کا قرب بڑھتا جائے گا اتنا ہی ہوائیں زیادہ مشکبار ہوتی جائیں گی۔ اس وقت دل خود گواہی دے گا کہ ہاں بھئی! ہم مقصود کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ کیا اس وقت کسی فلسفی اور منطقی کو ڈھونڈو گے کہ فلسفہ و منطق کی رو سے باغ کا وجود ثابت کردے تو مانوں گا؟ ارے میاں! اس وقت یہ قیل و قال یاد بھی نہیں آئیں گے۔

اس وقت روح پر ایسی مستی ہوگی جس کی لذت ِقرب کے آگے سارے فلسفے ہیچ ہوں گے،وہ لذت ِقرب باغ کے وجود پر خود دلیل ہوگی۔سی طرح اللہ کا راستہ جوں جوں قطع ہوتا جاتا ہے لذتِ قرب بڑھتی جاتی ہے، پھر فلسفہ و منطق، دلائل و شواہد کی حاجت نہیں رہتی بلکہ یاد بھی نہیں آتے۔۔۔

55:14) جو اِرادہ کرتا ہے وہ منزل تک پہنچ جاتا ہے۔۔۔!!

57:15) دُعا کی پرچیاں۔۔۔!!

دورانیہ 56:53 

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries