دُنیا ہماری خادم ہے مخدوم نہیں! خاص نصیحت ۔ ۔ ۔

( رات دورانِ مجلس ۔ ۔ ۔ ۳ جون ۲۰۱۴ء )

محفوظ کیجئے

تفصیلات(کلک کریں)

فرمایا: حضرت والا کا شعر ہے ؎

قضاء   کے   بعد   ہوئی   سرد   نفس  کی  دنیا
نہ حسن و عشق کے جھگڑے نہ مال و دولت کے

موت کے بعد سب ختم ہوجاتا ہے تو عقلمند بندہ وہ ہے جو اِس دنیا میں رہ کر آخرت کی تیاری کرے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے صاحبزادے  فرمایا تھا جب کہ کسی کو خبر بھی نہیں تھی کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفۂ دوم ہوں گے،اُس وقت اُن کے بیٹے سے فرمایا تھا کہ كن في الدنيا كأنك غريب أو عابر سبيل ( بخاری شریف) اے ابن عمر دنیا میں ایسے رہنا جیسے مسافر رہتا ہے پھر فرمایا بلکہ مسافر بھی کچھ دیر ٹھہر کر آرام کرلیتا ہے اور تھوڑا بہت سامان ساتھ لے کر چلتا ہےأو عابر سبيل بلکہ ایسے رہو جیسے راستہ گزرنے والا!

جو تھوڑی دور جارہا ہو وہ کوئی اہتمام نہیں کرتا بس اِس طرح سے دُنیا میں رہو۔ یعنی دُنیا سے اپنا دل نہ لگاؤ اپنے اوقات اور اپنی ساری صلاحیتیں صرف دنیا بنانے کی فکر میں مت لگاؤ، جیسے آج کل ہے کہ ہر ایک کو دنیا ہی بنانے کی فکر ہے وہ دنیا جو ہمارے آرام کے لئے تھی، ہماری خادم تھی اُس کو ہم نے مخدوم بنا لیا، نتیجہ اس کا یہی ہوتا ہے کہ پریشان رہتے ہیں اور جس وقت موت کا وقت آتا ہے اور حقیقت کھلتی ہے کہ جس چیز پہ ہم نے محنت کی وہ ہماری کس کام آرہی ہے، بیوی بچے یہی رہ گئے مال و دولت یہیں چھوٹ رہا ہے، مکان، کاریں اور موبائل سب کچھ یہی چُھوٹا جارہا ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو عقل دے!  اس لئے عقلمند بندہ وہی ہے جو ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے لئے تیار رہے!

حضرت والا فرماتے تھے کہ اپنی فائل کو دُرست رکھے، نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ جو کچھ بھی اُس کے اوپر ہے اُس کا حساب رکھے اور پورا کرنے کا اہتمام کرے!

زندگی میں قضاء نمازیں ادا کرنے کی کوشش کرو اور اگر رہ جائیں تو وصیت کردو کہ میری اتنی نمازیں رہ گئیں اس کا فدیہ ادا کردیا جائے، اسی طرح روزہ کے بارے میں بھی نصیحت فرمائی کہ قضاء روزے پورے کرے اگر بہت ضعیف ہوگیا یا ایسا بیمار ہوگیا اور دوبارہ صحت ہونے کی اُمید نہیں تو فدیہ دے۔ اسی طرح زکوٰۃ کا معاملہ ہے حضرت والا شیخ العرب والعجم عارف باللہ مجدد زمانہ رومی ثانی ، تبریزِ وقت جنیدِ زمانہ  حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب رحمۃ اللہ علیہ  فرماتے تھے کہ حساب لگا کر زکوٰۃ نکالنی چاہیے ۔ ۔ اور حج کسی کا رہ گیا ہے تو حج ادا کرے اور اگر صحت اس قابل نہیں رہی تو حجِ بدل کرائے۔

اسی طرح جو گناہ سرزد ہوگئے یا ہورہےہیں اُس کی اصلاح کی کوشش کرو، ماضی پر معافی مانگو! حال کو درست کرو مستقبل خود ہی روشن ہوجائے گا۔

خصوصاً جو اس دور کا فتنہ ہے بدنظری!!  یہ صرف نوجوانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ بوڑھوں کے لئے بھی فتنہ ہے۔ بوڑھا جو کچھ بھی نہیں کرسکتا وہ اتنا تو کرہی سکتا ہے کہ نگاہوں کو خراب کرلے اور دیکھ کر مزہ لے لے یعنی جتنی بدمعاشی کرسکتا ہے اُتنی تو کرلیتا ہے۔ اس پر ایک بدکار بڑھیا کا عبرت ناک واقعہ ذکر فرمایا پھر ارشاد فرمایا جتنی طاقت اور استطاعت ہوتی ہے نفس اُس کو چھوڑنے میں کمی نہیں کرتا، اس کی اگر کوئی فکر نہ کرے تو اِسی نافرمانی اور عذب کے سائے میں آدمی اللہ تعالیٰ کے پاس جاتا ہے، اللہ تعالیٰ حفاظت فرمائے۔۔

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries