مجلس۳ نومبر۲۰۱۳ء۔ صحبتِ شیخ سے زندگی ملتی ہے

محفوظ کیجئے

آج کی مجلس کی جھلکیاں(کلک کریں)

خلاصہءمجلس:آج بھی مختصر مجلس تقریباً آدھے گھنٹے کی ہوئی ۔۔۔ ممتاز صاحب نے معرفت محبت صفحہ نمبر۳۹۰سے ملفوظات پڑھنا شروع کیے۔۔۔ بیوی کا دل خوش کرنے سے متعلق چند ملفوظات  ۔ ۔۔شیخ کے ادب کی تعلیم۔۔۔۔ باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب ۔۔ حُبِّ جاہ صدیقین کے سر سے بھی سب سے آخر میں نکلتی ہے۔۔۔ چندے سے متعلق حضرت والا دامت برکاتہم کی نصیحتیں ۔۔۔۔حضرت والا کا دردِ دل ہے۔۔۔۔حضرت والا کا طرزِ عمل اور سلسلے کی برکات۔۔۔۔حضرت والا کی تشریحات کے ساتھ مختصر لیکن بہت مفید مجلس ہوئی۔۔۔

آج کی مجلس مختصر تھی ۔۔۔ حضرت والا شروع ہی کے مجلس میں رونق افروز تھے ۔۔۔۔ حضرت کے حکم سے حضرت ممتاز صاحب نے ملفوظات پڑھنے شروع کیے۔۔۔ آج کی مجلس میں ایسے ملفوظات پڑھے گئے کہ خود ممتاز صاحب بھی پڑھتے پڑھتے  بار بار آبدیدہ ہوتے جاتے تھے۔۔۔ حاضرین مجلس پر بھی گریہ طاری  تھا۔۔۔

ارشاد  فرمایا:  اسلام میں بیوی کا دل خوش کرنا اور خوش رکھنا بہت بڑی عبادت ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بیویوں کے متعلق قرآن پاک میں سفارش کی۔۔۔۔

ایک شخص نے کھانے میں نمک تیز کردینے پر بیوی کو معاف کردیا، مرنے کے بعد ایک بزرگ نے خواب دیکھا کہ اس نے کہا اﷲ تعالیٰ نے مجھے اِسی عمل کی برکت سے بخش دیا کہ میں نے اپنی بیوی کے نمک تیز کرنے کو معاف کردیا تھا۔۔۔۔

حضور صلی اﷲتعالیٰ علیہ وسلم نے پچیس سال کی عمر میں حضرت خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا سے جو چالیس سال کی تھیں شادی کی اور آپ کی ۵۲؍سال کی عمر مبارک تک زندہ رہیں مگر اُن کی تکلیف کے خیال سے آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے دوسری شادی نہیں کی کہ بی بی خدیجہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہاکو تکلیف ہو گی۔۔۔۔

شیخ کے ادب کی تعلیم: حضرت والا دامت برکاتہم کے ایک مُجاز نے عرض کیا کہ جب میں خانقاہ آتا ہوں تو بہت سے احباب اور جاننے والے اور مریدین گھیرلیتے ہیں۔۔۔بہت منع کرتا ہوں لیکن لوگ نہیں مانتے۔ مجھے اس معاملہ میں بہت تشویش ہے۔۔۔ جواب ارشاد فرمایا

شیخ کا ادب یہ ہے کہ خانقاہ میں جانے کے بعد اپنا وجود ہی نظر نہ آئے کہ ہم کیا ہیں۔ سب مریدین اور معتقدین کو سمجھادو کہ شیخ کے سامنے میںشیخ نہیںہوں، شیخ کے سامنے میں شیخ کا غلام ہوں۔ لہٰذا یہاں کوئی میرا ہاتھ چومے گا یا نصیحت سننے کے لیے مجمع لگائے گا یا جوتے اُٹھائے گا تو میں سختی سے پیش آئوں گا۔

سب کو ڈانٹ دو کہ مجھے برباد مت کرو اور بدنصیب مت بنائو کیونکہ اگر میں بے ادب ہوں گا تو بے نصیب ہوجائوں گا کیونکہ باادب بانصیب اور بے ادب بے نصیب ہوتا ہے۔

جب مخدوم بنوگے تو شیخ کی خدمت کیسے کروگے اور نفس کیسے مٹے گا۔ نفس کی چالیں بہت باریک ہوتی ہیں، مخلوق میں عزت دکھاکر نفس اندر اندر خوش ہوتا ہے۔

نفس بہت مشکل سے مٹتا ہے، شیخ کے سامنے ذلیل ہوجائو، اس کے پائوں میں خود کو خوب رگڑ والو۔ بزرگوں نے لکھا ہے کہ حُبِّ جاہ صدیقین کے سر سے بھی سب سے آخر میں نکلتی ہے۔

۳ منٹ ۵۶ سیکنڈ: یہاں پر حضرت والا مندرجہ بالا ملفوظ کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: " سب سے بڑا درجہ ولایت کا جو ہے وہ صدیقیت ہے۔۔ یعنی پوری اصلاح ہوجاتی ہے۔۔جبھی تو اس درجے تک پہنچتے ہیں۔۔۔ غصہ، باہ ، بدنظری ،ما ل کی بے جا محبت ، دُنیا کی بے جا  محبت، ریا ، دکھاوا وغیرہ یہ سب بیماریاں نکل جاتی ہیں۔۔صدیقین کے دل سے ۔۔۔ اور اصلاح ہوجاتی ہے۔۔لیکن سب سے آخر میں جو چیز نکلتی ہےدماغ سےجو جاہ ہے۔ یعنی اپنے کو بڑا سمجھنا۔۔ یہ نہیں کہ کھلم کُھلایہ چیز رہتی ہے۔۔بلکہ مشکل سے فنا ہوتی ہے۔۔وہ تو کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔ یہ نہیں کہ وہ جاہ میں مبتلا ہیں بلکہ  وہ اُس کے تقاضوں پر عمل نہیں کرتے۔۔۔ جاہ کا    مادہ  اُن کے اندر رہتا ہے۔۔اور۔ سب سے آخر میں اُن کے اندر سے نکلتا ہے۔۔۔ یہ ایسا بُرا مرض ہے۔۔

اِسی جاہ کے مرض نے شیطان کو مردود کیا۔۔اسی جاہ کی وجہ سے بیوی اپنے شوہر سے لڑ جاتی ہے۔۔اور شاگرد استاذ سے لڑ جاتا ہے۔۔اور مرید شیخ سے نعوذ باللہ لڑ جاتا ہے۔۔۔

اپنے کو بڑا سمجھنا ۔۔ اپنی عزت چاہنا۔۔۔قرآن مجید  کی اس آیت   : ……لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًاسورۃ )القصص۸۳ )۔ پڑھی اور فرمایا ۔۔  یعنی جو بڑائی اور فساد نہیں چاہتے۔۔۔کیونکہ بڑائی چاہنے سے ہی فساد پیدا ہوتا ہے۔۔جب آدمی اپنے آپ کو بڑا دیکھاتا ہے۔۔اور بڑا سمجھتا ہے۔۔تو دوسرا اُس کی ضد کر کےاِس کو نیچا دیکھانے کی کوشش کرتا ہے۔۔پھر آپس میں اختلاف ہوجاتا ہے۔۔اور فساد پیدا ہوتا ہے۔۔۔

حضرت حکیم الا مت تھانوی رحمۃ اللہ نے جاہ کے علاج کے لیے یہی لکھا ہے۔۔کہ اس آیت  تِلْكَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُهَا لِلَّذِينَ لَا يُرِيدُونَ عُلُوًّا فِي الْأَرْضِ وَلَا فَسَادًا ۚ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ    کا مراقبہ کیا کرو کہ آخرت کا گھر ہم نے اُن لوگوں کے لیے بنایا ہے۔جو دُنیا میں بڑائی اور فساد نہیں چاہتے تو انشاءاللہ تعالی فائدہ ہوگا ۔ یہ تو علمی علاج ہے۔۔۔او ر عملی علاج یہ ہے۔۔۔ کہ جس کہ اندر جاہ کا مرض ہواور لوگ اُس کی تعریف کرنے لگیں اُس کے منہ کے اوپر۔۔ تو روک دے۔۔کہ میرے سامنے میری تعریف نہ کرو کیونکہ اس سے میرے باطن کو نقصان پہنچتا ہے۔۔

لیکن یہ سب باتیں شیخ کے مشورہ سے کرے اپنے آپ سے خود سوچ سوچ کےاپنا علاج خود نہیں کیا جاتا۔۔۔ شیخ کے مشورے سے کرو۔۔۔جو وہ تجویز کرے۔

جیسا نسخہ لکھا ہوتا ہےکہ اس کا علاج یہ بھی ہے یہ بھی ہے۔۔لیکن حکیم اور ڈاکٹر سے ہی پوچھنا پڑتا ہے۔۔ترکیبیں تو سب لکھی ہوئی ہیں اُن کواستعمال کرنے سے فائدہ تو ہوتا ہےلیکن اصلاحِ کامل جو ہوتی ہے۔وہ شیخ کو اطلاع کرنے سے ہوتی ہے۔۔

یہ حکیم الامت نے لکھا ہے۔کہ کوئی اپنے کسی رزیلے یعنی روحانی بیماری کا خود کتاب سے علاج کررہا ہے۔جیسے حضرت والا کی کتاب اصلاح ِاخلاق یا روح کی بیماریاں اور ان کا علاج اس میں بہت سے علاج لکھے ہوئے ہیں۔۔اُس پر عمل کرکے دیکھےاگر اُس سے فائدہ ہوتا ہے۔۔تو ٹھیک ہے۔۔پھر شیخ کو اطلاع کی ضرورت نہیں ۔۔۔لیکن تین بار کے استعمال کے اگر فائدہ نہ ہورہا ہو تواب شیخ کو اطلاع کرنا ضرور ی ہے۔۔۔ تو شیخ ِ کامل اُس کے دوسرا علاج تجویز کرے گا جو اُس کو مفید ہوگا۔

حضرت والا کی اس تشریح کے بعد ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھناشروع کیا:

فرمایا: شیخ کے انتقال کے بعد بھی اس کا اور اس کی اولاد کا، اس کے بیٹوں کا، اس کے پوتوں کا ادب لازم ہے۔ خصوصاً اس کی اولاد، بیٹے پوتے اگر عالم اور حافظ بھی ہوں تو سونے پر سہاگہ ہے کہ ان کو شیخ کی نسبت بھی ہے اور علمِ دین کی نسبت بھی ہے۔شیخ حکیم الامت مجدد الملت حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی قبر پر حاضر ہوئے تو میں نے دیکھا کہ ادب کی وجہ سے بغیر کچھ بچھائے زمین پر بیٹھ گئے اور رو رہے تھے۔۔۔۔

اللہ تعالیٰ مجھ کو بھی اور آپ کو بھی اور سب کو باادب بنادے اور بے ادبی سے بچائے، آمین۔ آخر میں فرمایا کہ شیخ کے ادب کا یہ مضمون کبھی کبھی مجلس میں سنوادیا کرو۔۔۔۔

احقر مرتب عرض کرتا ہے کہ چند سال پہلے حضرت والا نے ایک صاحب کو اجازت بیعت عطا فرمائی۔ انہوں نے اپنی مجلس کا وہی وقت رکھا جو رات کو حضرت والا کی مجلس کا وقت ہوتا ہے اور مجلس میں نہیں آئے۔ حضرت والا نے ان کے بارے میں دریافت فرمایا کہ کہاں ہیں؟ معلوم ہوا کہ ان کے گھر پر ذکر کی مجلس ہورہی ہے۔ حضرت والا نے ناراضگی کا اظہار فرمایا اور فرمایا کہ جو میری مجلس کو چھوڑ کر اپنی مجلس کو گرم کرے گا اس کی گرمیاں بھی سردیاں ہوں گی۔

ایک اجازت یافتہ نے عرض کیا کہ سخت عذر و معذرت کے باوجود اور علم و عمل کے اعتبار سے بے مائیگی کے باوجود لوگ حسنِ ظن کی وجہ سے احقر کو بیانات پر مجبور کرتے ہیں۔ اس وقت یہ ہفتہ واری سلسلہ شہر کی مختلف مساجد میں جاری ہے، پتہ نہیں یہ سلسلہ مجھے جاری رکھنا چاہیے یا نہیں؟

غور کریں کہ ’’لوگ مجبور کرتے ہیں‘‘ کوئی چیز آپ کو اپنے شیخ کی مجلس میں آنے پر مجبور نہیں کرتی؟ ہمارے بزرگوں کا کیا طریقہ رہا ہے؟ اپنے بیانات کی مجالس سجانا یا شیخ کی مجلس میں خود کو مٹانا؟۔۔بیانات کے لیے وقت نکل آنا اور اپنے شیخ کے پاس آنے کی فرصت نہ ملنا قلت محبت کی علامت ہے۔

اولیاء اللہ کی تاریخ شاہد ہے کہ جنہوں نے اپنے مشایخ کی قدر کی، اللہ نے ان ہی سے دین کا کام لیا۔۔۔

۱۳ منٹ ۵۳ سیکنڈ: حضرت والا مندرجہ بالا ملفوظ کے بارے میں فرمایا: یہ عالم وعظ کہتے تھے اور مختلف گھروں پر بھی جاتے تھے۔۔۔صحیح وقت پر۔۔۔لیکن حضرت والا کی مجلس میں نہیں آتے تھے ۔۔۔ جب ہم نے اُن سے پوچھا تو وہ کہنے لگے۔۔۔وقت ہی نہیں ملتا۔۔۔بہت ہی مصروفیت ہے۔۔اُس پر حضرت والا نے مندرجہ بالا ملفوظ ارشاد فرمایا تھا۔۔کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ لوگ مجبور کرتے ہیں۔۔کہ آپ وعظ کہیں۔۔۔ تو آپ کو کوئی چیز مجبور نہیں کرتی۔۔۔کہ آپ شیخ کی مجلس میں آئیں۔۔۔

حضرت والا میر صاحب نے مزید ارشاد فرمایا : کتنا بڑا نفس کا کید ہے کہ لوگوں کے مجبور کرنے سے پہنچ گئے۔۔ اپنی مرضی کے مطابق اُس کو ڈھال لیا۔۔ اور شیخ کی مجلس میں جانا کیا ضرور ی ہے نعوذ باللہ۔۔۔ بعد میں پھر خیر اصلاح ہوگئی ۔آنے لگے۔

ایک اور صاحب کا تذکرہ فرمایا جن کا ذکر گذشتہ ملفوظ میں گزر چکا ہے جنہوں نے اپنی مجلس کا وہی وقت رکھا حضرت والا کی مجلس کا تھا۔۔۔حضرت والا نے پوچھا کہ وہ صاحب کہاں ہیں۔۔تو بتایا گیا کہ اُن کے گھر پر مجلس ہورہی ہے۔۔۔تو اِس پر حضرت والا نے فرمایا تھا کہ جو میری مجلس کو چھوڑ کراپنی مجلسیں گرم کرے گا۔۔اُس کی گرمیاں بھی سردیاں ہوں گی۔

۱۶ منٹ ۱۰ سیکنڈ : یہ راستہ بہت ادب کا ہے، حضرت ہی سے سُنا تھا ۔۔۔پھر پورا واقعہ دو شاگرد وں اور اُن کے شیخ کا سُنایا ۔۔۔ایک شاگرد تو آیا دوسرا نہیں آیا۔۔۔ شیخ کا دل مکدر ہوگیا اور اُس شاگرد کا سارا تعلق مع اللہ ختم ہوگیا۔۔۔عجیب واقعہ شیخ کے بہت ادب کی تلقین۔۔

فرمایا کہ یہ راستہ جو ہے بہت ہی نازک ہے۔۔اس میں سب سے بڑی چیز شیخ کا ادب ہے۔۔۔اللہ ہم سب کو اس کی توفیق دے۔۔۔اور سمجھ دے۔۔ حضرت والا نے فرمایا تھا کہ۔۔۔ بادشاہوں کے پاس رہنا آسان ہے۔۔۔شیخ کے پاس رہنا مشکل ہے۔۔کیونکہ بادشاہ زیاد ہ سے زیادہ جان لے گا۔۔لیکن اگر شیخ کا دل اگر مکدر ہوگیا۔۔۔خدانخواستہ۔۔۔تو ایمان و سوہ ء خاتمہ  کا خطرہ ہوجاتا ہے۔۔اللہ محفوظ رکھے۔۔

مگر یہ نہیں کہ ڈر کی وجہ سے شیخ کے پاس  جاتا چھوڑ دے۔۔۔کہ زیادہ رہوں گا۔۔۔تو کہیں ایسی بات نہ ہوجائے۔۔۔مثال:  ایسے تو زندگی ملی ہوئی ہے کوئی سوچے کہ میں کوئی گناہ نہ کر بیٹھوں، کفر نہ کر بیٹھوں تو کیا کوئی چاہتا ہے کہ میرے زندگی کوئی چھین لے۔۔اسی طرح شیخ کی صحبت جو ہے۔۔اس سے زندگی ملتی ہے۔۔ اصل حقیقی حیات ملتی ہے۔۔اس طرح سب توہمات اور وہم جاتے رہیں گے۔۔جب شیخ کی مجلس میں ہم لوگ پابندی کی آئیں گے۔۔

ممتاز صاحب نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا: چندے سے متعلق حضرت والا  رحمہ اللہ کی نصیحتیں۔ اس سے اگے حضرت والا کی شان استغناء اور تعلق مع اللہ کی عظمت کے ایسے ایسے مضامین بیان ہوئے کہ ممتاز صاحب خود بھی روتے جاتے تھے اور حاضرین پر بھی گریہ طاری تھا۔۔۔

جس کو اللہ ملتاہے تو وہ ساری کائنات پر غالب ہوتاہے اور اگر یقین نہ آئے تو بزرگوں کے اس ادنیٰ غلام کے ساتھ ایک سفرکر کے دیکھو کہ کیسے کیسے رئیس اور مالدار اس فقیر کے سامنے اور بڑے بڑے علماء عزت کرتے ہیں۔۔۔۔

آج علمائے دیوبند اس فقیر کی بات نوٹ کر رہے ہیں خوب سمجھ لو اللہ والوں کی غلامی معمولی بات نہیں ہے۔۔۔۔

کچھ غیر تربیت یافتہ دنیا دار مولویوں نے امیروں کے دروازے پر جاجا کر چندہ مانگ کرمالداروں کا دماغ خراب کر دیا ، ورنہ میں سچ کہتا ہوں کہ اللہ والوں کی دولت کا اگرپتہ چل جائے تو یہ ساری دنیا کے بادشاہ اپنے تخت و تاج ان کے قدموں میں رکھ دیں اورکہیں کہ یہ دولت جو آپ کے اندر ہے ہمیں بھی دے دو ورنہ ہم تلوارسے ابھی حملہ کردیں گے

لیکن حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ تلواروں سے یہ دولت نہیں ملتی، یہ تو ان کی جوتیاں اٹھانے سے ملے گی۔ جو لوگ کہتے ہیں ان بزرگ پیروں سے کیا ملتا ہے؟ میں کیا کہوں اپنے بزرگو ں کی غلامی کے بعد جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کی بارش دیکھ رہا ہوں ایک لاکھ قسمیں کھا لوں تو بھی حق ادا نہیں کر سکتا۔۔۔

حضرت مولانا شاہ فضلِ رحمٰن صاحب گنج مراد آبادیؒ اور ایک سرکاری ملا کا واقعہ پڑھا گیا۔

کہ شاہ صاحب کی تقریر کے درمیان فوراً بول پڑا کہ آپ کو نواب صاحب نے بلایا ہے اور کہا ہے کہ اگر آپ تشریف لائے تو نواب صاحب آپ کو ایک لاکھ اشرفی نذرانہ دیں گے۔

لیکن شاہ صاحب نے کیا فرمایا او مولوی صاحب! سن لاکھ روپے پر ڈالو خاک اور سنو میری بات، اور پھر یہ شعر پڑھا؎

جو دل پر ہم ان کا کرم دیکھتے ہیں….تو دل کو بہ از جام جم دیکھتے ہیں

وہ مولوی اپنا سا منہ لے کر رہ گیا۔اسی کو مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کو لوگوں نے پہچانا نہیں؎)  یہاں ممتاز صاحب کی آواز بوجہ گریہ بھراگئی جذب کی کیفیت تھی( 

اشقیا را   دیدۂ    بینا     نبود

نیک و بد در دیدہ شاں یکساں نمود

بدبختوں کے دل کی آنکھیں اندھی تھیں، ان کو اچھے اور برے ایک سے نظر آئے۔ میرا بھی ایک اردو شعر ہے؎

لب ہیں خنداں  جگر میں  ترا   درد و غم

تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم

یہ دردِ دل معمولی نعمت ہے؟اگر ایک کروڑ کی سلطنت بھی شاہ صاحب کو نذر کرتاتو ان کے دردِ دل کی قیمت ادا نہ کر سکتا۔ آج بھی اللہ تعالیٰ کی محبت کا درد اللہ والوں کی جوتیوں کے صدقے میں ملتا ہے، پھر مولوی مولوی ہوتا ہے مولیٰ والا۔

اسے خود بھی احسا س ہوتا ہے کہ میں رئیس الکائنات ہوں۔ اﷲ والا حافظ قرآن ہے، عالم ہے، گھر میں چٹنی رو ٹی ہے، کپڑوں پر پیوند لگے ہیں مگر اس کا دل مست ہوتا ہے کہ میں رئیس الکائنات ہوں کہ مولائے کائنا ت میرے دل میں ہے۔

حضرت والا دامت برکاتہم کا طرزِ عمل اور سلسلے کی برکات:۔۔۔۔آ پ بتائیے کہ سفرمیں میں نے کسی مدرسے کا نا م لیا؟ کسی مسجد کے منبر پر، کسی جلسے میں میں نے اپنے مدرسے گلشن اقبال کانام نہیں لیا،اس لیے کہ کہیں ان کے دلوں میں یہ وسوسہ نہ آجائے کہ اچھا ’’آمدم بر سرِ مطلب‘‘

۔۔۔۔وہ مجھے اپنی دکان پر لے گیا تھاجو اتنی بڑی تھی جیسے ائیرپورٹ۔ اس نے مجھے سے کہا جو چیز آپ کو پسند ہو وہ لے لیں،مجھے بہت خوشی ہوگی۔ میںنے کہا کہ مجھے تو آپ پسند ہیں، اگر آپ میری مجلس میں آئیں اور اﷲ کی محبت کی بات سنیںتو میں سمجھوں گا کہ آپ نے ساری دکان میرے نام لکھ دی۔۔۔

میں نے کہا کہ یہ اللہ کی محبت ہے اگرمیرے پاس مدرسہ بھی نہ ہو اور بالفرض عمار ت بھی خانقاہ کی نہ ہو تو ان شا ء اللہ اختر جنگل میں بھی بیٹھ جائے گا تو دیکھناوہاں کیا عالم ہو گا اور دیکھ لیا جنگل میں آپ نے۔۔۔جب میں تالاب ودریا کے کنارے جنگل گیا ہوں تو کیا مخلوق کا ایک جم غفیر نہیں پہنچا؟۔۔۔

ہمارے اکابر کاطریقہ:میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ کوئی بھی صاحبِ باطن چندے کے لئے دروازے دروازے نہیں پھر سکتا۔ اگر اس کے قلب میں مولیٰ ہے تو اسے غیرت آتی ہے۔۔۔۔

اس مضمون کے بیان کے بعد آج کی مجلس اختتام پو پہنچی ، نہایت درد دل اور چشم ِ نم کے ساتھ ممتاز صاحب نے آج کے ملفوظات پڑھے اور کئی لوگو ں کو حضرت والا رحمہ اللہ کی یاد دلادی۔۔ آہ کیا شان تھی حضرت والا کی ۔۔۔ اور ہمارا گمان اقرب الی الیقین ہے کہ یہی دولتِ یقین و دردِدل ہمارے شیخ و مرشد صدیق زمانہ قلندرِ وقت حضرت اقدس میر صاحب کو منتقل ہوئی ہے۔

خود حضرت والا رحمہ اللہ نے  ایک موقع پر فرمایا تھا’’علی گڑھ کا گریجویٹ فنا فی اللہ سب کچھ چھوڑ کر بیٹھا ہوا ہے کسی چیز کی طلب نہیں میرے پاس جو کچھ تھا میں نے اسے دے دیا‘‘۔

اور یہ بھی  فرمایا تھا :  " جو عشرت سے محبت کرتا ہے میں اس کی محبت کو تسلیم کرتا ہوں اور جو عشرت سے محبت نہیں کرتامجھے اس سے مناسبت نہیں ہوتی میں اس کی محبت کو تسلیم نہیں کرتا کیا وجہ ہے کہ مجھ سے تو محبت ہو اور مجھ سے محبت کرنے والے سے محبت نہ ہو ، ضرور کوئی کمی ہے اور عشرت مجھ سے سب سے زیاہ محبت کرتا ہے۔"

 بس وہی بات ہے: 

لب ہیں خنداں  جگر  میں  ترا  درد و غم

تیرے عاشق کو لوگوں نے سمجھا ہے کم

 

Joomla! Debug Console

Session

Profile Information

Memory Usage

Database Queries